اسلام آباد ہائیکورٹ کے جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب اور جسٹس ثمن رفعت امتیاز پر مشتمل ڈویژنل بنچ نے چیئرمین پی ٹی آئی کی انٹرا کورٹ اپیل پرسماعت کی۔ اٹارنی جنرل منصور اعوان اور چیئرمین پی ٹی آئی کے وکیل سلمان اکرم راجہ پیش ہوئے۔ جسٹس حسن اورنگزیب نے سلمان اکرم راجہ سے پوچھا کہ عدالت پر اعتماد کے حوالے سے اپنے موکل سے ہدایات لے کرآگاہ کردئیں اگرعدالت پراعتماد نہیں تو بھی ہمیں بتا دیں۔ وکیل چیئرمین پی ٹی آئی نے عدالت پر مکمل اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے سائفر کیس کی جیل میں سماعت اور وزارت قانون کے نوٹیفیکیشن پر دلائل دیئے۔ جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے پوچھا کہ ٹرائل جیل میں چلانے سے متعلق اجازت دینے کا اختیار کس کے پاس ہے؟ وکیل بولے وزارت قانون نے سکیورٹی وجوہات کی بنا پر جیل ٹرائل کیلئےخط لکھا عدالت بعد میں جاری نوٹیفکیشنز کو بھی دیکھ سکتی ہے۔ جسٹس حسن اورنگزیب نے کہاکہ میں نےگزشتہ سماعت پر بھی کہا تھا کہ اب وقت مختلف ہے، اس کیس میں کتنے گواہوں کے بیانات قلمبند ہوچکے ہیں؟ پراسیکیوٹر نے بتایا کہ تین گواہ پیش ہوئے لیکن ابھی تک بیان ریکارڈ نہیں ہوسکے۔ جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے استفسار کیا اگر شہری جیل ٹرائل دیکھنا چاہتے ہیں توان پر پابندی کیوں ہے؟ اور اگر ملزم کی سکیورٹی کا مسئلہ ہے تو سکیورٹی تھریٹ کی جگہ کوئی بھی کیسے داخل ہوسکتا ہے؟ چیئرمین پی ٹی آئی کے وکیل نے سائفر کیس کے اوپن ٹرائل کی استدعا کی۔ عدالت کے پوچھنے پر اٹارنی جنرل نے آئندہ سماعت پر دلائل دینے کا موقف اپنایا جس پر جسٹس گل حسن اورنگزیب نے کہا کہ عدالت کیس کا فیصلہ جلد کرنا چاہتی ہے تاہم اٹارنی جنرل کو سنے بغیر حکم امتناعی جاری نہیں کرینگے۔ جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے ریمارکس دیئے کہ اٹارنی جنرل غیر مناسب اندازمیں ٹرائل آگے نہ بڑھایا جائے۔ انصاف نا صرف ہونا چاہیے بلکہ ہوتا ہوا دیکھائی بھی دینا چاہیے۔ اٹارنی جنرل نے ملزم کے حقوق متاثرنہ ہونے کی یقین دہانی کروائی۔ کیس کی سماعت اگلے منگل 14 نومبر تک ملتوی کردی۔