سپریم کورٹ میں صحافیوں کو ہراساں کرنے کے خلاف ازخود نوٹس کی سما چیف جسٹس کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے کی۔چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے ریمارکس دیئے کہ زندہ قومیں اپنی غلطی تسلیم کرتی ہیں،لیکن یہاں پر تو کہا جاتا ہےمٹی پائوانھوں نےکہاپہلے والے سوموٹو میں تفصیلات لی جارہی تھیں کہ کتنے کیسز ہیں، یہاں تو بغیر کیسز کے ہی تشدد کیاجاتا رہا ہے چیف جسٹس نے صحافی اسد طور پر تشدد سے متعلق کیس کا استفسار کرتے ہوئے کہا کہ اس کیس کا کیا بنا؟ کیا اسد طور کا کیس فعال ہے یا سرد خانے کی نظر ہوگیا ہے؟اس دوران اٹارنی جنرل آف پاکستان نے جواب دیا کہ اسد طور پر تشدد کا مقدمہ درج ہوا تھا،چیف جسٹس نےاسدطور سے استفسار کیا۔کیا آپ ملزمان کو پہچانتے ہیں؟صحافی نے جواب دیا ملزمان سامنے آئیں تو پہچان سکتا ہوں، میرے فلیٹ پر ملزمان موبائل استعمال کرتے رہے لیکن جیوفینسنگ نہیں ہوئی،ملزمان کے مطابق ان کا تعلق حساس ادارے سے تھا لیکن کسی کو شامل تفتیش نہیں کیا گیا،انھوں نے کہا کہ میں اس تین سال پرانی درخواست سے خود کو الگ کررہا ہوں،چیف جسٹس نے کہا کیا آپ نے جھوٹے الزامات لگائے تھے؟جواب میں اسد طور نےکہا ایف آئی آر میں عائد الزامات پر قائم ہوں،چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے آپ کیس بھلے نہ چلائیں ہم آپ کو بنیادی حقوق دلوائیں گے،آپ پر دباو ہے تو کیس واپس نہیں لینے دینگے، چیف جسٹس نے مطیع اللہ جان کے کیس سے متعلق بھی پوچھا کہ کیا میں کیا ہوا؟اس کے بعدعدالت نے اسد طور اور مطیع اللہ جان کے کیسز میں وفاقی حکومت سے پیشرفت رپورٹ طلب کی۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے تنقید روکنے سے میرا کوئی فائدہ نہیں اگر حکومت یہ کر رہی ہے تو اسکے سخت خلاف ہوں،اٹارنی جنرل صاحب اگر آپ سوچ رہے ہیں کہ تنقید روک کر سپریم کورٹ یا میرا بھلا کررہے ہیں تو یہ غلط ہے،ایسا کرکے آپ ہمارا نقصان کررہے ہیں،حکومت صحافیوں کیخلاف کارروائی کرکے میرا نقصان کر رہی ہے،گالی گلوچ الگ بات ہے تنقید اصلاح کیلئے ہوتی ہے،فیصلے کو غیرآئینی اور غلط کہنا توہین عدالت نہیں ہوتا،اگر کوئی صحافی تشدد یا انتشار پر اکسائے تو الگ بات ہے، تنقید کی بنیاد پر صحافیوں کے خلاف درج ہونے والے مقدمات فوری واپس لئے جائیں،فیصلوں پر تنقید صحافی اور عام شہری بھی کرسکتے ہیں،صحافیوں کو ہراساں کرنے کیخلاف کیس سرد خانے میں چلا گیا،ہم کب تک ماضی کی غلطیوں کو دہراتے رہیں گے،ہمیں سچ بولنا چاہیے، اگرہم سے غلطی ہوئی تو انگلی اٹھائیں،جب تک کسی کو قابل احتساب نہیں ٹھہرائیں گے ایسا ہوتا رہے گا،کسی بھی صحافی یا عام عوام کو بھی تنقید کرنے سے نہیں روک سکتے،جسٹس مسرت ہلالی نے ریمارکس دیئے ملک کی عزت ختم ہوگئی ہے،سوشل میڈیا نے اداروں کو تباہ کر دیا ہے بہت سے لوگوں نے کام کرنا چھوڑ دیا ہے،ان لوگوں کا ذریعہ معاش ہی یوٹیوب پر لوگوں کو گالیاں دینا ہے،ایسے لوگوں کو ملک کی کوئی فکر نہیں ہوتی،جسٹس محمد علی مظہر نے کہا یوٹیوب کا کوئی کوڈ آف کنڈکٹ نہیں ہوتا،جو کچھ یوٹیوب کے تھمب نیل میں ہوتا ہے وہ ویڈیو میں نہیں ہوتا،عدالتی فیصلے پبلک پراپرٹی ہوتے ہیں،فیئر تنقید میں مسئلہ نہیں لیکن جو زبان استعمال کی جاتی ہے چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے گالم گلوچ الگ بات ہے، ایف آئی اے تنقید کی بناء پر کارروائی نہ کرے،آزادی صحافت آئین میں ہے،میرا مذاق بھی اڑائیں مجھے کوئی فکر نہیں،عدلیہ کا مذاق اڑائیں گے تو ملک کا نقصان ہوگا،سپریم کورٹ پر تنقید ضرور کریں لیکن آئین میں بھی کچھ حدود ہیں،تعلیمی اداروں پر سب سے زیادہ حملے پاکستان میں ہوئے ہیں،کیا یہ شرم کی بات نہیں ہے؟ کیا کسی صحافی نے اس بات کو اجاگر کیا ہے؟آزادی اظہار رائے اس طرح بھی استعمال ہوتا ہے کہ لوگوں کو مارا جاتا ہے،نوبل انعام یافتہ ملالہ یوسفزئی پاکستان نہیں آسکتیں اور ہم کچھ نہیں کرسکتے،ان کے پاس بندوق ہے اور ہمارے پاس قلم ہے، سرکاری مساجد میں تنخواہ لینے والے امام لوگوں کو یہ درس کیوں نہیں دیتے؟خواتین کو تعلیم سے روکنا اسلامی تعلیمات کےخلاف ہے،سپریم کورٹ نے صحافیوں کے خلاف گرفتاری اور مقدمات کے اندراج سے حکومت کوروک دیااٹارنی جنرل نے عدالت کو یقین دہانی کراتے ہوئے کہا کسی صحافی کے خلاف تنقید پر کوئی کارروائی نہیں کی جائے گی۔کیس کی سماعت منگل تک ملتوی کردی گئی
سپریم کورٹ کا صحافیوں کے خلاف درج مقدمات واپس لینے کا حکم
Date: