کیا آپ الیکشن لڑنا چاہتے ہیں؟
تحریر: انصار مدنی
پچھلے دنوں ہم 1970 کی دہائی میں سیاسی سرگرمیوں میں حصہ لینے والے کسی بزرگ کے پاس بیٹھے ہوئے تھے وہ اپنے لیڈر کی کامیابیوں کے گن گا رہے تھے ان کامیابیوں کے بہت سے کرداروں کے بارے میں وہ لاعلم تھے اور یقیناً انہیں لاعلم رہنا چاہیے کیونکہ وہ اس عہد کے تقاضے تھے مگر موجودہ حالات میں وطن عزیز کے جس حصے میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ الیکڑانک اور پرنٹ میڈیا سے وابستہ لوگوں کے مرہون منت ہم سب باخبر ہیں بلکہ پچھلے ستر سالوں میں جو کچھ ہو چکا ہے وہ بھی سوشل میڈیا پر سرگرم عمل نوجوانوں کی وجہ سے ہم سنا بھی رہے ہیں اور دیکھ بھی رہے ہیں جس کی وجہ سے اب کوئی عوامی سطح پر مطالعہ پاکستان، پاکستان کی خارجہ پالیسی، بین المذاھب اور بین المسالک ہم آہنگی جیسے موضوعات پر بالعموم اور پاکستان کے آزادانہ، منصفانہ، شفاف الیکشن کے حوالے سے بات کرنا بالخصوص بہت مشکل ہے۔ جب آپ کسی واقعے کے پس منظر پیش کرنے کے لیے تمہید باندھ رہے ہوتے ہیں اسی دوران آپ کے منظر نامے کے برعکس سامعین ویڈیوز دیکھ رہے ہوتے ہیں۔اس اعتبار سے سیاسی قائدین کسی تقریب سے خطاب سے پہلے یہ سوچ لیں کہ یہاں بیدار لوگ بیٹھے ہوئے ہیں اور ساتھ ہی یہ دعا بھی کریں کہ اللہ تعالیٰ ملک عزیز کے صاحب اختیار لوگوں کو یہ توفیق دے کہ وہ اس بات کو سمجھ لے کہ یہاں کے عوام اب باشعور ہوچکے ہیں اور دن رات ان کے شعور و آگہی میں اضافہ ہو رہا ہے۔ بالفاظ دیگر موبائل دینے کے بعد لوگوں کو فیسبک، یوٹیوب، ٹویٹر، انسٹاگرام، واٹس ایپ، ٹک ٹاک وغیرہ کا عادی بنانے کے بعد اب لوگوں کو متعلقہ ذرائع ابلاغ سے دور رکھنے کے بارے میں سوچنا، پلاننگ کرنا، ان انگنت کیمروں سے بچ کر کوئی منصوبہ بنانا پھر اسے پائے تکمیل تک پہنچانا نہ صرف ناممکن ہے بلکہ وقت اور بیسوں کا ضیاع ہے، اب سیاست اور صحافت دونوں میں سچ بولنا، سچ لکھنا اور سچ سوچنا انتہائی ضروری ہوگیا ہے۔ فاعْتَبِرُوْا یٰۤاُولِی الْاَبْصَارِ۔ تو اے آنکھوں والو! عبرت حاصل کرو۔ القرآن، سورہ حشر آیت 2
نوٹ(ادارے کا مضمون نگار کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں)