تحریر:ارسلان احمد صدیقی
اے آئی کے اس دور میں یہ بحث بہت ہوتی ہے کہ کیا انسان اے آئی کو کنٹرول کر سکے گا یا نہیں؟ یہ سوال اٹھایا جارہا ہے کہ کیا اے آئی انسانیت کے لیے خطرناک بھی ہوسکتی ہے؟ اس حوالے سے میری رائے بہت سادہ اور سمجھنے میں آسان ہے۔ اور وہ یہ ہے کہ انسانی انٹیلیجنس بمقابلہ آرٹیفیشل انٹیلیجنس بہت کمزور ہے۔ کیونکہ انسانی انٹیلیجنس الگ الگ دماغوں اور جسموں میں ہوتی ہے جبکہ آرٹیفیشل انٹیلیجنس ایک نیٹ ورک کے ساتھ منسلک ہوکر ایک بہت بڑا دماغ اور نیوروسسٹم بنالیتی ہے۔ تو بیشک ایک فرد کا دماغ اور یاد داشت ایک نیٹ ورک کے مصنوعی دماغ کے سامنے کمزور نظر آتا ہے۔ لیکن آپ یہ بات نہ بھولیں کہ انسان صرف دماغ سے نہیں سوچتا۔ بلکہ اس کے پاس ایک دل بھی ہوتا ہے۔ جو بظاہر سوچتا نہیں لیکن دماغ کو کچھ ایسے فیصلے کرنے پر مجبور کردیتا ہے جن کی دماغ اور عقل بالکل اجازت نہیں دیتی۔ یہی پاگل پن انسانوں کو اے آئی کے مقابلے میں طاقتور بناتا ہے انسان دماغ سے سوچتے ہیں اور دل سے فیصلہ لیتے ہیں جبکہ اے آئی صرف دیٹا انالیسز کرکے وہ فیصلے لیتا ہے جو معقول ہوں۔ دل کے لیے ہوئے ان عجیب فیصلوں کو اے آئی سمجھ نہیں سکتا۔ کیونکہ یہ اتنے پیچیدہ ہوتے ہیں کہ خود انسان بھی انہیں سمجھنے سے قاصر ہے۔ تو اے آئی کی طاقتور نیٹ ورکنگ کے بجائے اپنے دل میں جھانکیے۔ خود کو سمجھیں۔ خود کو پہچانیں۔ انسان سے زیادہ کوئی شے اس دنیا میں طاقت نہیں رکھتی۔ سوائے انسان کے خالق کے۔ انسان مرنے کے لیے پیدا ہی نہیں ہوا۔ بلکہ یہ مخلوق امر ہے اور پوری کائنات کو مسخر کرنے کے لیے پیدا کی گئی ہے۔ اسکا نیورو لنک پوری کائنات سے جڑا ہوا ہے۔ کائنات کی ہر شے اس کے لیے پیدا ہوئی ہے اور اس کے لیے ہی کام کرتی ہے۔ انسان کو اس کے خالق نے کائنات کی ہر شے سے افضل اور اشرف بناکر پیدا کیا ہے۔ انسان کا مقابلہ خود اپنے آپ سے ہے باقی کوئی اور طاقت اس کے مقابلے کی سکت نہیں رکھتی سوائے اس کے خالق کے۔ لہذا کائنات کو سنوارنے اور بگاڑنے کی طاقت بنی نوع انسان کے پاس ہے۔ جبکہ انسانی جبلت میں کائنات اسکے جسم کا حصہ ہے، اور اس جسم کا خود کار نظام آپس میں کنکٹ ہے۔ انسان فطری طور پر اپنے جسم کو نقصان نہیں پہنچاتا۔ نہ ہی اسے مارتا ہے۔ وہ بس مشاہدات اور تجربات کرکے سیکھنا اور سمجھنا چاہتا ہے۔ اس سیکھنے کے عمل میں کبھی کبھی جو نقصان پہنچتا ہے انسان اسے ٹھیک بھی خود ہی کرلیتا ہے۔ اے آئی کی تخلیق بھی اس ہی انسانی فطرت کا ایک عملی مظاہرہ ہے۔ ۔انسان کی بنیادی جبلت کمیونیکیشن ہے۔اور اے آئی دراصل کمیونیکیشن کا ایک ذریعہ ہے جو انسان نے بنایا ہے تاکہ وہ خود سے بات کرسکے۔ خود کو اپنی فوٹو کاپی کی طرح سامنے رکھ کر دیکھ سکے اور مزید سمجھ سکے۔
یہ سادہ سی بات شاید کچھ انسانی دماغوں کے لیے مشکل ہو مگر آپ کا دل اور دماغ اسے سمجھ سکے گاکیونکہ یہی حقیقت ہے۔ یہ تحریر انسانی دل کی طرف سے ایک کوڈڈ میسج ہے۔ نوٹ (ادارے کا مضمون نگار کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں )
👍