امریکا میں بار ایسو ایشن سے خطاب کرتے ہوئے جسٹس اطہر من الله کا کہنا تھا کہ ہائبرڈ نظام حکومت اور جمہوری نظامِ حکومت میں عدلیہ کی آزادی کا الگ الگ تصور ہے،ججوں کی تعیناتی میں مجھے ایک جج کو منانے میں تین اور دوسرے جج کو منانے میں دو سال لگے،ان ججوں پر کسی کو اعتراض نہ تھا مگر پورا نظام اِن سے خوفزدہ تھا اور حتی کہ وزیر اعظم بھی ان ججوں کی تعیناتی کی مزاحمت کرنے والوں میں شامل ہو گئے،جنہیں میری عدالت کے علاوہ کہیں سے بھی ریلیف نہیں ملتا تھا آج وہ بھی میرے خلاف پروپیگنڈہ کر رہے ہیں2202 میں جو میرے خلاف پروپیگنڈہ کررہے تھےاب وہ دوسری طرف کھڑے ہیں، صدر (آصف زرداری) کیخلاف (سوئس حکام کو) خط نہ لکھنے پر وزیر اعظم (یوسف رضا گیلانی) کو عہدے سے ہٹانا غلط تھا کیونکہ صدر کو آئینی استثنی حاصل تھا،9 مارچ 2007 کو چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کو جب آرمی ہاؤس میں نظر بند کر دیا گیا تو میرے ساتھی جسٹس یحیی آفریدی کے مشورے پر ہم نے حبسِ بیجا کی درخواست دائر کرنے کا فیصلہ کیا،اور ہمارے وکیل جسٹس منصور علی شاہ تھے، رجسٹرار نے 12 اعتراضات لگائے اور پھر وہ درخواست کبھی نہیں لگی،تمام ججز کو معلوم تھا کہ اُنکے چیف جسٹس گھر میں نظر بند ہیں مگر کسی نے وہ درخواست نہیں سنی،18ویں ترمیم پاکستان کے لئیےبہترین تھی مگر اُس وقت کےچیف جسٹس افتخار محمد چودھری نے اِسے عدلیہ کی آزادی مخالف قرار دیا،اور پارلیمنٹ سے زبردستی 19ویں ترمیم کروائی اور یہ سب وکلا تحریک کے اصولوں کے منافی تھا،وکلا تحریک کے بحال ہونے والے ججوں نے نوجوان نسل کو بہت مایوس کیا، جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا تھا کہ یہ ججوں کی بحالی کی نہیں آئین کی بحالی کی تحریک تھی،میمو گیٹ کیس اِس قابل نہیں تھا کہ سپریم کورٹ اس پر سماعت کرتی، وزرا اعظم کو تاحیات نا اہل کیا گیا اور عہدے سے برطرف کیا گیا، وکلا تحریک اس مقصد کے لئیے نہیں تھی،چڑیا گھر کے ہاتھی، ایک ریچھ اور آوارہ کتوں سے متعلق کیس بھی سنے،جنرل ضیا الحق کی خصوصی صلاحیتوں کی حامل بیٹی کی خواہش پر سری لنکا کی ریاست نے ایک ہتھنی سے اُسکا ایک سال کا بچہ چھین کر ریاست پاکستان کے حوالے کر دیا،اور اُسے ایوان صدر کے عقبی صحن میں چھوڑ دیا گیا اور بعد میں اُسکے لئیے اسلام آباد میں چڑیا گھر کی بنیاد رکھی گئی، جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ سپریم کورٹ کے پاس غیر آئینی اقدامات یا آئین کی پامالی کو تحفظ دینے کا کوئی اختیار کبھی نہیں رہا اور اگر ججز ایسا کرتے ہیں تو یہ اُنکے ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی ہے،بطور چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ 9 اپریل کی رات کو عدالت کھولنے کی وجہ یہ تھی کی اےآر وائی نیوز پر مارشل لأ لگانے کی باتیں کی جا رہی تھی،اور جب ایسی صورت حال ہو تو تمام عدالتوں کو رات کو کھل جانا چاہئیے
سوئس حکام کو خط نہ لکھنے پر سابق وَیر اعظم یوسف رضاگیلانی کے خلاف فیصلہ غلط تھا، جسٹس اطہر من الله
Date: