پولیس شہدا

Date:

ہم بچے سے بڑے ہوگئے اور بڑے سے بوڑھے مگر کبھی اپنے صوبے بلوچستان کے اچھے حالات نہ دیکھ سکے، ہمارے بچوں نے بھی بچپن ان ہی حالات کو دیکھتے ہوئے گزار دیا، تاہم بڑے ہو کر وہ ہماری طرح نہ بنے اور حالات سدھارنے کیلئے ان ملک دشمن عناصر سے لڑنے کی ڈھان لی۔میرے سب سے چھوٹے کو سب بڑے بڑے کام کرنے کا شوق تھا۔۔۔ اسے شہر اور صوبے میں امن لانا تھا، اسے خوشیاں باٹنی تھی، ایک پرسکون ماحول پیدا کرنا تھا، وہ پولیس میں جانا چاہتا تھا اور ہم سب بھی اس پر راضی تھے۔ وہ خوشی خوشی ٹریننگ پر گیا ، تین سے چار ماہ کیسے بیتے پتا ہی نہ چلا اور پھر جلد اس کی ٹریننگ مکمل ہونے کا پروانہ ملا۔گھر میں موجود ہر شخص اس کی پاسنگ آؤٹ میں جانا چاہتا تھا، وہ خاندان کا پہلا فرد تھا جو کسی فورس میں گیا تھا، اس سے پہلے کبھی یہ موقع ہی نہ ملا تھا۔پھر اس کی پاسنگ آ ؤٹ کا دن بھی آگیا ، اماں ابا، میں اور میرے میاں کچھ تحفے جو ہماری اوقات میں تھے اور پھل اس کے اور اس کے دوستوں کیلئے لیے اور کوئٹہ روانہ ہوگئے۔کوئٹہ پہنچ کر پورا دن ملنے ملانے اور گفت گو مین کٹ گیا، دن کہاں بیتا پتا ہی نہ چلا اور رات گھس آئی،اس وقت سے بے خبر کہ یہ آنے والی رات کچھ روز بعد ہمیشہ کیلئے ہمارے گھروں میں گھر کر جائے گی۔دوسرے دن ہم سب اس سے مل کر واپس آگئے، یہ سوچ کر کے دو دن بعد اسے بھی واپس آجانا ہے، مگر کیا خبر تھے کہ اب کی بار وہ آئے گا تو ہمیشہ کیلئے ہی رہ جائے گا۔اس کی آخری کال اس رات اچانک ہی آگئی، وہ بہت گھبرایا ہوا تھا، صرف اتنا ہی کہہ سکا،اب شاید ہماری بات نہ ہوسکے اور کھٹ سے فون بند ہوگیا، میں اس کی بات کا مطلب نہ سمجھ سکی، صرف یہ ہی خیال آیا کہ صبح وہ آرہا ہے شاید ایسے ہی ڈرا رہا ہے، کیا خبر تھی کہ ہم آنے والے ڈر سے بے خبر ہی رہے اور اس ٹریننگ سینٹر میں ایسی قیامت آکر گزری کہ کئی خاندانوں کے چراغ گل ہوگئے۔اسے ابھی دن ہی کتنے ہوئے تھے کہ اس نے بندوق اٹھانی اور چلانی سیکھی تھی، ابھی تو اس نے زندگی کی ہزار بہاریں دیکھنا تھیں، ابھی تو سر پر سہرے کے پھول کھلنے تھے، شادی کے شادیانے بجنے تھے مگر اب ان کی جگہ سر پر سجے میت کے پھول ہیں اور گھروں سے نکلتی آہ و بکا اور دلخراش چیخیں۔جس خاندان میں بھوک ہو، افلاس ہو ، غربت ہو، اس خاندان کے سپوت کو پولیس میں نوکری ملنا خزانے سے کم نہ تھا، مگر افسوس کہ میرا بیٹا میرا لختہ جگر اس خزانے کو اپنے ہاتھوں میں محسوس نہ کرسکا، جس وردی کا اسے مان تھا، وہ وردی اپنے سینے پر سجا نہ سکا۔ جس مقصد کی خاطر اس نے مقتل کا جام پیا تھا، وہ مقصد اسے خون خون کرگیا۔ہم والدین نے اپنے بچوں کو اس ملک کی وطن کی حفاظت کا طریقہ سیکھنے بھیجا تھا، ایسے مرنے تو نہیں، ابھی تو انہوں نے بڑے بڑے محاذ فتح کرنے تھے، مگر یہ کیا کہ کلی کو کھلنے سے پہلے ہی مرجھا ڈالا۔کسی نے منتیں کر کے تو کسی نے ماں کے کنگن بیچ کر جیسے تیسے یہاں تک کا سفر طے کیا ہوگا، مگر یہ کیسا ٹریننگ سینٹر تھا جو اپنے محافظ کو محفوظ نہ رکھ سکا۔۔ ایک ایسا ادارہ جسے سب سے زیادہ مضبوط ہونا تھا اتنا کھوکھلا رکھا گیا۔۔۔
ایک طرف وہ ہوتے ہیں جن کے پروٹوکول کے نام پر اربوں روپے خرچ ہوتے تھے، کبھی وی وی آئی پی سیکیورٹی پر،تو کبھی خاندانوں کے لاؤ لشکر پر تو کبھی اندورنی بیرونی سفر پر مگر اس ٹریننگ سینٹر میں قیام پذیر یہ ایسے بچے تھے جن کیلئے کئی ہزار روپے بھی بھاری پڑے۔کبھی بندوق ہے تو گولی نہیں، موبائل ہیں تو پیٹرول نہیں، دہشت گردوں سے لڑنے کے لئے اسلحہ نہیں، بلٹ پروف جیکٹس نہیں۔ ہے تو بس ایمان اور جذبے کی شدت۔ہم ماتم بھی کریں تو کس بات کا یہ نہ سہی اور سہی۔۔ ہم نے سنا تھا کہ قیام امن میں بیٹے والد کا جنازہ اٹھاتے ہیں، مگر زمانہ جنگ میں باپ جوان بیٹوں کا جنازہ اٹھاتے ہیں، شاید ہم واقعی حالات جنگ میں ہیں کہ ہر گزرتے لمحے میں بوڑھے کاندھے اپنے جوانوں کا جنازہ اٹھاتے ہیں۔
شکریہ کے ساتھ کہا سنا معاف۔۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here

Share post:

Subscribe

spot_imgspot_img

Popular

More like this
Related

بشری بی بی کو یکم جنوری کو عدالت پیش نہ کرنے کے خلاف درخواست دائر

بشری بی بی کو یکم جنوری کو عدالت پیش...

حماس نے کمانڈرمحمد الضیف کی شہادت کی تصدیق کر دی

حماس کی عسکری ونگ القسام بریگیڈ کے ترجمان ابو...

ایرانی وزیر خارجہ کی قطر میں حماس کے اعلی عہدیداروں سے ملاقات

ایران کی نیم سرکاری مہر خبررساں ایجنسی کے مطابق،...