تحریر: انصارمدنی::
کوئی سنجیدہ گفتگو ہورہی ہو، یا اساتذہ کوئی مسئلہ سمجھا رہے ہوں تو وہ دورانِ گفتگو اکثر ایک جملہ کہا کرتے ہیں’’کیا آپ مجھے سنتے ہیں؟‘‘ یا وہ یہ بھی کہتے ہیں ’’توجہ سے میری بات سننا‘‘ظاہر ہے ہم انہیں سننے کے لیے وہاں پہنچے ہیں تو پھر انہیں یہ جملہ باربار دہرانے کی کیوں ضرورت پیش آتی ہے؟اس جملہ کے پس منظر کو سمجھنے کے لیے ہمیں بولنے والے کی ذہنی کیفیت کو جاننا ضروری ہے،گفتگو کرنے والا جب کسی جگہ کھڑے ہوکر سننے والے یعنی سامعین کے حرکات وسکنات کو دیکھتا ہے تو وہ سمجھ لیتا ہے کہ سننے والوں میں سے اکثر کئی ذہنی تناؤ کا شکار ہیں، جسمانی طور وہ میرے پاس موجود ہیں مگر روحانی طور پریہ کہیں دور جگہ پہنچ چکے ہیں وہاں کے آب وہوا سے لطف اندوز ہورہے ہیں، وہاں کی رنگینیوں میں کھو چکے ہیں، جس کی وجہ سے وہاں کی مصروفیت کے اثرات ان کے چہرے پر عیاں ہورہے ہیں، اس لیے دورانِ گفتگو مقرران کے چہرے کے تاثرات دیکھ کر فوراً کہہ دیتا ہے کیا آپ مجھے سنتے ہیں؟قرآنِ مجید نے اس کیفیت کو بڑی خوبصورتی سے بیان کیا ہے کہ:خَتَمَ اللّٰهُ عَلٰى قُلُوْبِهِمْ وَ عَلٰى سَمْعِهِمْؕ-وَ عَلٰۤى اَبْصَارِهِمْ غِشَاوَةٌ٘-وَّ لَهُمْ عَذَابٌ عَظِیْمٌ۔(القرآن، سورہ بقرہ، آیت۷)اللہ نے ان کے دلوں پر اور ان کے کانوں پر مہرلگادی ہے اور ان کی آنکھوں پرپردہ پڑا ہواہے اور ان کے لئے بہت بڑا عذاب ہے۔اکثرمفسرین لکھتے ہیں کہ جب ہمارے پیارے نبیﷺ تبلیغ دین کی غرض سے لوگوں کے سامنے کھڑے ہوتے تھے تو آپﷺ کے بدخواہ، منافقین، کفارومشرکین، آپﷺ کی بہترین گفتگوپر توجہ نہیں دیتے تھے بلکہ وہ اس پاکیزہ محفل سے روحانی طور پر دور ہوجاتے تھےبلکہ وہ اپنے ذہن کو آپﷺ کے خلاف سازشوں میں مصروف رکھتے تھے، بظاہر وہ لوگ آپﷺکی پاکیزہ محفل میں ہوتے تھے مگر روحانی طور پر اپنے ہمنوا، ہم خیال لوگوں کی محفل میں رہتے تھے۔اس تصورِ حیات کی روشنی میں جب ہم اپنے معاشرے کا جائزہ لیتے ہیں تو ہمیں محسوس ہوتا ہے کہ ہمارے ہاں بھی اس قسم کی صورتحال کا سامناہے، یعنی ہمارے لوگ آج کل سوشل میڈیا کے مختلف گوشوں میں مصروفِ عمل ہیں جس کی وجہ سے لوگ جب کسی کلاس روم میں، کسی اہم میٹنگ یا سنجیدہ گفتگومیں شریک ہوتے ہیں تو گوکہ وہ جسمانی طور پر اس محفل میں نظرآتے ہیں مگر روحانی طور پر وہ وہاں سے غائب رہتے ہیں، اس کے علاوہ ہمارے تجربہ میں یہ بات بھی ہے کہ مساجد میں اکثر نمازی دورانِ نماز مقدس آیات کی تلاوت کررہے ہوتے ہیں مگر روحانی طور پروہ کہیں اور پہنچ جاتے ہیں۔ یعنی مقدس ترین جگہ مسجدمیں ہوتے ہوئے وہ فکری طور پر نہایت غلط جگہ پہنچ جاتے ہیں۔اس قسم کی فکری پیچیدگیوں سے نکلنے کے لیے بالعموم اور تعلیم وتربیت سے جڑے ہوئے لوگوں کے لیے بالخصوص اس بات کا اہتمام کرنا چاہیے کہ وہ معصوم ذہنوں کو فکری انتشار سے محفوظ رکھیں یعنی والدین اپنے بچوں کی شخصیت سازی پر کام کریں انہیں غیرضروری مصروفیت سے دور رکھیں۔ ان غیرضروری مصروفیات میں سے ایک مصروفیت اپنے بچوں کو سوشل میڈیاپر آزاد چھوڑ دینا بھی ہے۔اس کے علاوہ آج کل ہمارے خاندانوں میں کچھ ایسے افرادجو بدکردار ہیں وہ مقدس رشتوں کی آڑ میں داخل ہورہے ہیں جن کی وجہ سےہمارے تربیتی اصولوں اور سماجی رویے تباہ ہورہےہیں۔ ظاہر ہے خاندان کے سربراہ کی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ اپنے خاندان کے ہر فرد کو اس قسم کے لوگوں سے دور رکھیں جو صلہ رحمی کے غلط تصور لے کر آپ کی دہلیز پر پہنچ جاتے ہیں۔اگر خاندان کا سربراہ اپنی لالچ کی وجہ سے ایسے بدکردار رشتہ داروں کو اپنے حرم میں داخل ہونے دے گا تو ایک طرف وہ خالق ومالک پروردگار کے سامنے جوابدہ ہوگا تو دوسری جانب ان کے خاندان کے معصوم بچے اپنی شخصیت سے محروم ہوں گے، اس کا پہلانتیجہ یہ نکلے گا کہ خاندان کے افراداپنے والدین کی نصیحتوں پر توجہ نہیں دیں گے نیک کاموں کی انجام دہی میں کاہلی اور سستی کا مظاہرہ کریں گے۔اہلِ دانش اس کی حکمت یہ بیان کرتے ہیں کہ جب کوئی بدکردار شخص کسی گھر میں داخل ہوتاہے تو اس کے دیکھنے، بولنے اور چھونے سے وہ تمام بُرے خیالات معصوم بچوں کے لاشعور میں منتقل ہوتے ہیں اور وہ معصوم بچہ اپنے اساتذہ یا والدین کواپنا آئیڈیل نہیں سمجھتا ہے بلکہ ان بدکردار لوگوں کے روشِ زندگی سے متاثر ہوتاہے، ظاہر ہے اپنے معصوم بچوں کو اس راستے پر چلنے کی تحریک دینے والے ان کے لالچی والدین ہوتے ہیں، جو بڑے اہتمام کے ساتھ ان بدکردار رشتہ داروں کو صلہ رحمی کا عنوان دے کر اپنے گھر بلالیتے ہیں، ان کی خدمت مدارت کرتے ہیں، نتیجتاً ان کی فرمانبردار اولادفکری طور پر اُن کی اغوشِ تربیت سے نکل کردوسروں کے خیالات کی اسیر ہوتی ہے۔ فاعتبروا یااولی الابصار۔
(ادارے کا مضمون نگار کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں)