تحریر: انصار مدنی
پچھلے چند دنوں میں گلگت شہر اور مضافات میں کتوں کے اچانک حملہ آور ہونے سے کئی انسانی جانیں ضائع ہوچکی ہیں اس حوالے سے کئی باتیں مختلف فورمز میں زیر بحث ہیں، ظاہر ہے ہم اس معاشرے میں زندگی بسر کررہے ہیں گوکہ ہمارے پاس نہ اختیار ہے اور نہ ایسے وسائل ہیں جن کی بنیاد پر ہم براہِ راست اس کتا مار مہم کا حصہ بنیں البتہ ایک ذمہ دار شہری کے طور پر چند باتیں، خواہشات، احساسات صفحہ قرطاس پر منتقل کررہے ہیں ممکن ہے کہ یہ باتیں کسی صاحبِ اختیار، صاحبِ شعور کے تحت الشعور میں بیٹھ جائیں۔
1- آوارہ کتوں کی کثرت:
بچپن میں ہمیں پورے گاؤں میں کوئی آوارہ کتا نظر نہیں آتا تھا اس کی کیا وجوہات تھیں؟ کل ہمارے ایک بزرگ کہنے لگے کہ اس کی سب سے بڑی وجہ ہمارا پورا گاؤں ذمّہ دار لوگوں سے بھرا رہتا تھا، ہر شخص اپنے گھر، محلہ کی صفائی ستھرائی پر نظر رکھتا تھا، کہیں کوئی جانور ذبح ہوتا تھا تو اس کی آلائشوں کے ساتھ ساتھ خون کا ایک قطرہ بھی کہیں سطح زمین پر نظر نہیں آتا تھا۔
اب تو صورت حال یہ ہے کہ ہر شخص اپنے گھر سے گندگی باہر گلی میں پھینکتا ہے اب تو صورت حال یہ ہے کہ ہمیں ہر طرح کے پیمپرز بھی گلیوں میں نظر آتے ہیں جنہیں کتے ایک دوسرے سے چھینے کے لیے روزانہ لڑتے ہیں اور ہم ان کی لڑائی سے محضوظ ہوتے ہیں۔
کہنے کا مقصد یہ ہے کہ ہم خود ان آوارہ کتوں کو دعوت دیتے ہیں کہ وہ ہمارے محلوں میں تشریف لائیں، ہمارے جیسے میزبانوں کے ہوتے ہوئے وہ کھا مکھا بیابانوں میں، پہاڑوں میں بھوکے پیاسے بھڑک رہے ہیں۔
2- گندگی کا کیا بنے گا:
فی الحال ہم حکومتی سطح پر جو اقدامات اٹھائے جا رہے ہیں یا اٹھانے کے حوالے سے جو باتیں گردش کررہی ہیں اس پر بات نہیں کررہے ہیں بلکہ جو کچھ ہم اپنے اردگرد دیکھ رہے ہیں اس حوالے سے بات کررہے ہیں۔
ایک لمحے کے لیے سوچیے کہ جو کچھ ہم گند پھیلا رہے ہیں اس کا انجام کیا ہونا چاہیے؟ اگر یہ ہمارے گھر میں یا گلی محلے میں پڑا رہے گا تو اس کی وجہ سے کئی خطرناک بیماریاں جنم لیں گی اللہ بھلا کرے کہ ان کتوں کا کہ وہ ہمیں ان خطرناک بیماریوں سے بچانے کے لیے دور دور سے ٹولیوں کی شکل میں تشریف لاتے ہیں اور ہماری اس گند کو وہ اپنے حساب سے تلف کر رہے ہوتے ہیں۔ اس اعتبار سے ہمیں سوچنا چاہیے کہ ہم کیوں اپنی گند کو باہر گلی میں پھینکتے ہیں؟
3- ہم اس گندگی کا کیا کریں؟
ظاہر ہے ہر شخص یہ پوچھتا ہے کہ بالآخر ہم اس گند کا کیا کریں؟ اس حوالے سے ہم یہ مشورہ دیں گے جس پر ہم خود عمل کررہے ہیں، جس جگہ ہم رہ رہے ہیں وہاں ایک گھڑا کھود لیں جو چیزیں زمین میں گھل مل سکتی ہیں انہیں دفن کریں بقیہ جو چیزیں کھانے پینے کے بعد بچ جاتی ہیں انہیں آس پڑوس میں جو لوگ جانور پالتے ہیں انہیں دے دیں، پھر پلاسٹک والی چیزوں کو زیر استعمال لانے کے لیے بچوں میں ایسی تحریک پیدا کریں کہ وہ ان سے کئی طرح کے کھیلنے والی چیزیں بنائیں، ان کی حوصلہ افزائی کریں نتیجتاً بچے پہلے سے ہی انتظار میں بیٹھیں گے کہ کب بلاسٹک والی چیزیں گھر آئیں گی اور ہم انہیں اچک لیں۔
4- کتا مار مہم کب تک چلے گی؟
جانوروں کے ڈاکٹروں سے مشورہ کرکے انہیں اس بات پر آمادہ کیا جاسکتا ہے کہ وہ کتیا کا آپریشن کرکے انہیں بچہ جننے کی صلاحیت سے محروم کریں، کیونکہ ایک کتیا دس بارہ بچے جنتی ہے اتنے سارے بچوں کو مارنا یقیناً ایک دشوار عمل ہے۔
5- آوارہ کتوں سے پاک محلہ یا گاؤں ایوارڈ:
حکومتی سطح پر سالانہ ایک ایسا ایوارڈ دیا جائے جس کا عنوان ہو "آوارہ کتوں سے پاک محلہ یا گاؤں” اس ایوارڈ کو لینے کے لیے محلے یا گاؤں کے عمائدین پلاننگ کریں گے، پیش بندی کریں گے، یوں کتا مار مہم کی مد میں جو رقم خرچ ہورہی ہے اس کا عشر عشیر اس ایوارڈ پر خرچ ہو گا، اور جو لوگ کتا مار مہم کے خلاف ہیں ان کی مخالفت کا سامنا بھی نہیں کرنا پڑے گا۔
6- اس کے علاؤہ بھی کئی ایسی تجاویز ہیں جن کی بنیاد پر ہم عوام الناس کو ایک ذمّہ دار شہری بناسکتے ہیں مگر اس طرز کی تجاویز پر عمل کرنے کے لیے انسان کو صاحب اختیار ہونا ضروری ہے ورنہ مندرجہ ذیل تجاویز پر عمل کرکے ہم اپنی قیمتی جانوں کی حفاظت کرسکتے ہیں مثلاً:
# بچوں کو اکیلے باہر نکلنے نہ دیں۔
# رات کو گھر سے باہر نکلتے ہوئے ڈنڈا ساتھ رکھیں۔
# اپنے گھر میں یا باہر گلی میں گندگی نہ پھینکیں۔
# کتے کے کاٹنے پر جو انجکشن ضروری ہیں وہ لازماً کہیں موجود ہونا چاہیے۔
اللہ تعالیٰ ہم سب کو کتوں کے کاٹنے سے محفوظ رکھے اور جو لوگ کتوں کے کاٹنے کی وجہ سے وفات پا چکے ہیں اللہ تعالیٰ ان کی کامل مغفرت فرمائے اور لواحقین کو صبر دے آمین یارب العالمین۔
گلگت شہراور مضافات میں کتا مار مہم
Date: