سرزمین کی موت

Date:

تحریر : عزیز علی داد
گلگت بلتستان کا سماج متروک خیالات، بوسیدہ انتظامی نظام اور منافق سماجی اقدار کے بوجھ تلے دب کر مررہا ہے۔ لیکن ماوف اور تھکا ہارا ذہن اسی نظام سے جینے کی ترکیب مانگ رہا ہے۔ ترک زبان کا ایک محاورہ ہے کہ مچھلی سر سے سڑنا شروع ہوتی ہے۔ یعنی پہلی دماغ خراب ہوتا ہے۔ پھر اس کے بعد سماج میں بگاڑ پیدا ہوتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ ہمارا دماغ کیسے خراب ہوا؟ سادہ جواب یہ ہے کہ جن اداروں نے ہمارے دماغ کی تعمیر کرنی تھی۔ وہ اس کی تخریب میں مصروف رہے۔ مثال کے طور پر تعلیم نے ہمیں ایسا سبق سکھایا کہ ہم اپنے آپ سے ہی بیگانے ہوگئے۔ مذہب نے نفرت انڈھیل کر ہمیں ایک دوسرے سے جدا کردیا۔ ریاست نے ہمیں بے شناخت برزخ میں ڈھال دیا اور خاندان نے ہمیں اپنے خوابوں سے محروم کردیا۔اب ہمارے سماجی دماغ کے اندر ہر قسم کی بلائیں پل رہی ہیں۔ زندہ رہنے کے لئے یہ بلائیں اپنا خوراک مانگ رہی ہیں۔ جو ریاست، مذہب اور سماج ان کو بدرجہ اتم مہیا کررہے ہیں۔ ایسے میں جو کوئی عقل کی بات کرے گی /کرے گا تو سماجی دماغ کی بلائیں اسے نگل جاتی ہیں۔ ہم نے اپنے دماغ کو اتنا ماوف کردیا ہے کہ اب ہم اپنے وجودی حالات کی تفہیم کرنے کی صلاحیت سے بھی محروم ہوگئے ہیں۔ اسی لئے تو ہمارا وجود نابود ہوگیا ہے اور ہم این سی پی شناخت، خوابوں اور خیالوں کے ساتھ اپنی زندگی بسر کررہے ہیں۔ اس بنجر دماغ میں ایک متبادل سماج کا خواب اور انتظام کا تصور پیدا نہیں ہوسکتا۔تاریخ کے ایسے ہی موڈ پر لوگوں کو اپنے سماجی، ذہن اور ریاستی بیانئے سے انحراف لازمی ہوجاتا ہے تاکہ ہم اپنے ذہن کے غار سے باہر نکل کر سورج کی روشنی میں نئی دنیا دیکھ سکیں۔ اگر اس وقت یہ ذہنی انحراف نہیں کی تو ہمارا اس صدی کا بقیہ حصہ بھی بیگانگی کے برزخ میں گزرے گا۔ آج جو لوگ آپ کو گلگت بلتستان کو جنت بتا اور دکھا رہے ہیں، یہ وہی لوگ ہیں جو اس سرزمین کو جہنم بنانے کے ذمہ دار ہیں۔ ہم اب اتنے بے حس ہوچکے ہیں کہ ہم اپنے سامنے گلگت بلتستان کو جہنم میں تبدیل ہوتے ہوئے دیکھ رہے ہیں مگر اس کو روکنے کی بجائے اس نظام کے جہنم میں چھوٹا سا پلاٹ، مفاد اور سڑی ہوئی طاقت میں تھوڑا سا حصہ حاصل کرنے میں لگے ہوئے ہیں۔اس سب کے باوجود اس غیور دھرتی کی دہ یوس لوگ کچھ نہیں کررہے ہیں۔ لیکن دھرتی کی روح اس کی عصمت دری کے خلاف بغاوت کررہی ہے۔ آج وہ گلشیئرز جو کبھی ہماری زمینوں کے جسم کو پانی پلاتے تھے۔غصے سے پھٹ رہے ہیں اور ہر انسانی مداخلت اور نشان کو تباہ کررہے ہیں۔ ہم نے پہاڑوں سے جنگل کاٹ کر ان کو ننگا کرکے عصمت دری کی ہے۔ اس کے ردعمل میں پہاڑ اب ہم پر سنگ زنی کررہے ہیں۔ برف نے ہمارے ننگے جسم پر سفید جامہ پہنانے سے انکار کردیا ہے۔ اس سال راکاپوشی کا پہاڑ پہلی مرتبہ ننگا ہوگیا۔ اس کو دیکھ کر ہمارا سر شرم سے کیوں نہیں جُھکا؟ راکاپوشی وہ سجی/مقدس ماں ہے۔ جو ہماری زمین کے جسم کو پانی کی شکل میں دودھ پلا رہی تھی۔ مگر اب ہمارے حرص اور غلامی کی وجہ سے عریاں ہوگئی ہے۔آج جو آفات ہم دیکھ رہے ہیں۔ وہ ہماری مقدس ماؤں کی طرف سے ایک پیغام ہے۔ کیا آپ نہیں سن رہے ہیں کہ ہمارے مقدس مائیں دودھیلی، مرکم، یودھینی اور گاش مگاشی ہمیں کیا کہہ رہی ہیں؟ نہیں ہم سن نہیں سکتے کیونکہ ہم دماغی طور پر ماوف، آنکھوں سے اندھے اور کانوں سے بہرے ہوگئے ہیں۔ یہ ذہنی معذوری، بصارت سے محرومی اور بہرہ پن کس طرح پیدا ہوا؟ وہ اس طرح کہ ہم نے اپنی ماوں/دیویوں اور ان کی بنائی ہوئی جنت کو لالچی آقاوں کی خوشنودی حاصل کرنے کے لئے بیچ دیا۔ اب ہم سرزمین کے فرزند نہیں رہے بلکہ غیروں کے زرخرید غلام ہیں ۔جن کے اندر دماغ ہے اور نہ ہی روح۔ موت دل اور دماغ کے ختم ہونے کا دوسرا نام ہے۔ سمجھ نہیں آرہا ہے کہ یکم نومبر کو اس مقدس سرزمین پہ قصیدہ لکھوں یا لوگوں کی موت کا نوحہ۔  نوٹ : کالم نگار گلگت بلتستان کے معروف محقق، سکالر اور سوشل ایکٹیویسٹ ہیں۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here

Share post:

Subscribe

spot_imgspot_img

Popular

More like this
Related

اسٹریٹجک پارٹنرشپ معاہدے کے ثمرات،روس سے ایران کو بڑی مقدار میں ہتھیار فراہمی شروع

اسٹریٹجک پارٹنرشپ معاہدے کے نافذ ہونے کے بعد روس...

حکومتی مذاکراتی کمیٹی اور عوامی ایکشن کمیٹی کے درمیان معاہدہ طے پا گیا۔

مظفرآباد میں دونوں کمیٹیوں کے نمائندوں نے مشترکہ پریس...

گلگت:بصارتی معذوریوں کی حامل خواتین کی سماجی و معاشی شمولیت کے لیے پروجیکٹ کا آغاز

گلگت (پریس ریلیز) ـــ ویژن ویلفیئر فاؤنڈیشن کے زیر...