ٹرمپ کے منصوبے میں فلسطین و اسرائیل کے درمیان مذاکرات، 72 گھنٹوں میں قیدیوں کی رہائی، فوری انسانی امداد کی فراہمی، اور حماس کے ارکان کے لیے محفوظ راستے کی فراہمی شامل ہے۔واشنگٹن – غیر ملکی خبررساں ایجنسی کے حوالے سے اعتماد نیوزکی رپورٹ کےمطابق، وائٹ ہاؤس نے صدرڈونلڈ ٹرمپ کےاس منصوبے کی تفصیلات جاری کر دی ہیں جس کا مقصد غزہ میں جاری جنگ کا خاتمہ ہے۔عرب میڈیا کے مطابق، وائٹ ہاؤس نے اعلان کیا ہے کہ اس منصوبے میں فلسطینی اور اسرائیلی فریقین کے درمیان سیاسی امن کے افق تک پہنچنے کے لیے مذاکرات کا آغاز شامل ہے۔ منصوبے کے تحت اسرائیل کی منظوری کے بعد 72 گھنٹوں کے اندر تمام زندہ اور مردہ یرغمالیوں کی رہائی عمل میں لائی جائے گی۔ منصوبے میں اس بات پر زور دیا گیا ہے کہ جیسے ہی دونوں فریقین رضامند ہوں، جنگ کا فوری خاتمہ ہونا چاہیے۔غزہ میں فوری انسانی امداد کی فراہمی بھی اس منصوبے کا ایک اہم حصہ ہے۔ اس کے علاوہ، ان افراد کے لیے جو حماس سے وابستہ ہیں اور غزہ سے نکلنا چاہتے ہیں، ایک محفوظ راستہ فراہم کیا جائے گا۔صدر ٹرمپ نے منصوبے کے بارے میں کہا کہ یہ صرف غزہ میں جنگ روکنے کا معاملہ نہیں، بلکہ ہم پورے مشرق وسطی میں امن کی بات کر رہے ہیں۔ میں نے اسرائیلی وزیر اعظم بنیامین نتنیاہو سے جنگ کے خاتمے کے طریقوں پر بات چیت کی ہے۔صدر امریکہ نے اس بات پر زور دیا کہ وہ مشرق وسطی میں ایک پائیدار اور مستقل امن کے قیام کی بات کر رہے ہیں۔انہوں نے وعدہ کیا کہ جلد ہی امریکہ کی جانب سے امن کے اصولوں پر مبنی منصوبے کی تفصیلات جاری کی جائیں گی۔صدر ٹرمپ نے عرب اور اسلامی ممالک کے رہنماؤں اور یورپی اتحادیوں کا شکریہ ادا کیا کہ وہ امن کے اصولوں کی حمایت کر رہے ہیں۔ انہوں نے نتنیاہو کا بھی شکریہ ادا کیا کہ انہوں نے اس امن منصوبے سے اتفاق کیا۔انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان کے صدر اور فوج کے سربراہ نے بھی اس امن منصوبے سے اتفاق کیا ہے۔منصوبے کے مطابق، تمام اسرائیلی قیدیوں کو فوری طور پر اور 72 گھنٹوں کے اندر رہا کیا جائے گا، جبکہ اسرائیلی فوجیوں کی باقیات بھی فوراً ان کے اہل خانہ کو واپس کی جائیں گی۔ٹرمپ منصوبے کے تحت حماس کو فوری طور پر غیر مسلح کیا جائے گا اور اس کے تمام عسکری ڈھانچے کو ختم کیا جائے گا۔ اسرائیلی فوج کی غزہ سے مرحلہ وار واپسی کے لیے ایک متفقہ ٹائم لائن طے کی جائے گی۔ عرب اور اسلامی ممالک کو حماس سے رابطے اور معاملات کی ذمہ داری دی جائے گی۔ غزہ میں ایک بین الاقوامی نگران ادارہ امن کونسل قائم کی جائے گی، جس کی قیادت صدر ٹرمپ خود کریں گے، اور اس میں سابق برطانوی وزیر اعظم ٹونی بلیئر بھی شریک ہوں گے۔ یہ ادارہ غزہ میں نئی حکومت کی تشکیل کا ذمہ دار ہوگا، تاہم حماس اس حکومت کا حصہ نہیں ہوگی۔صدر نے ایک بار پھر مطالبہ کیا کہ اسرائیلی قیدیوں کو فوری طور پر حماس کے قبضے سے واپس لایا جائے۔ انہوں نے نتنیاہو کو جنگجو قرار دیا اور کہا کہ اسرائیل ان کی قیادت میں خوش قسمت ہے، حالانکہ انہوں نے غزہ میں جاری نسل کشی کا کوئی ذکر نہیں کیا۔صدر نے دعوی کیا کہ حماس فلسطینی عوام کا انتخاب تھی، اسرائیل نے غزہ سے انخلا کیا لیکن امن قائم نہ ہو سکا۔انہوں نے کہا کہ اسرائیل نے غزہ کی واپسی میں سخاوت کا مظاہرہ کیا۔ بہت سے فلسطینی امن چاہتے ہیں اور وہ ان کی حمایت کرتے ہیں، لیکن ان سے توقع ہے کہ وہ دہشت گردی کی مکمل مذمت کریں۔ان کے مطابق، امن منصوبہ فوری جنگ بندی، اسرائیلی قیدیوں کی واپسی، اسرائیل کی سلامتی کی ضمانت اور فلسطینیوں کی کامیابی پر مبنی ہے۔انہوں نے کہا کہ چند دنوں کے اندر غزہ میں ہتھیاروں کی آواز بند ہو جانی چاہیے۔صدر ٹرمپ نے اسرائیل کے لیے اپنی حمایت کا اعادہ کرتے ہوئے کہا کہ عالمی رہنماؤں نے ان سے درخواست کی تھی کہ وہ یروشلم کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم نہ کریں، لیکن انہوں نے یہ قدم اٹھایا۔
انہوں نے اعتراف کیا کہ انہوں نے اسرائیل کی گولان پر حاکمیت کو تسلیم کیا اور اقوام متحدہ کے ادارے "انروا” کی مالی امداد میں کمی کی۔صدر نے دعوی کیا کہ امریکہ کی تاریخ میں کوئی صدر اسرائیل کے لیے اتنا فائدہ مند نہیں رہا جتنا وہ خود ہیں۔انہوں نے کہا کہ وہ ممالک جو اسرائیل سے تعلقات رکھتے ہیں، ترقی کر رہے ہیں، جبکہ جو اسرائیل کو مٹانا چاہتے تھے، وہ ناکام ہوئے۔صدر نے عرب ممالک اور قطر کی کوششوں کو سراہتے ہوئے کہا کہ عرب اور مسلمان رہنما غزہ میں اپنی ذمہ داری قبول کرنے کے لیے تیار ہیں۔انہوں نے قطر کے وزیر اعظم و وزیر خارجہ محمد بن عبدالرحمن سے ایک تاریخی اور تعمیری رابطے کا ذکر کیا۔صدر نے قطر اور اس کے امیر کو امن پسند اور شاندار شخصیت قرار دیتے ہوئے قطر کو ثالثی کا کردار دینے کی خواہش ظاہر کی۔صدر ٹرمپ نے معاہدہ ابراہیمی کے دائرہ کار کو وسعت دینے کی خواہش ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ ان کا مقصد اسرائیل کے ساتھ تعلقات معمول پر لانے والے ممالک کی تعداد بڑھانا ہے۔انہوں نے دعویٰ کیا کہ حتی کہ ایران بھی اس معاہدے میں شامل ہو سکتا ہے، اور اگر ایسا ہوا تو یہ بہترین ہوگا۔صدر نے ایران کے ساتھ سابقہ جوہری معاہدے سے علیحدگی کو درست قرار دیتے ہوئے کہا کہ انہوں نے ایران کی یورینیم افزودگی کی صلاحیت کو ختم کردیا۔
صدر ٹرمپ کا غزہ جنگ کے خاتمے کا منصوبہ،وائٹ ہاؤس نےتفصیلات جاری کردیں
Date: