وفاقی وزیرِ خزانہ محمد اورنگزیب نے ورلڈ بینک فورم میں شرکت کرتے ہوئے پاکستان کی زرعی معیشت، مالیاتی اصلاحات اور موسمیاتی لچکدار پالیسیوں پر روشنی ڈالی۔ فورم میں ورلڈ بینک کے صدر اجے بنگا سمیت عالمی رہنماؤں نے بھی شرکت کی۔
وزیرِ خزانہ نے کہا کہ پاکستان کی معیشت میں زراعت کا حصہ تقریباً 25 فیصد ہے جبکہ اگر غیر رسمی شعبے کو شامل کیا جائے تو اس کا حقیقی حصہ 40 فیصد تک پہنچتا ہے۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ حکومت کا ہدف مداخلت نہیں بلکہ سہولت فراہم کرنا ہے تاکہ نجی شعبہ زرعی ترقی کی قیادت کرے۔
وفاقی حکومت کے قرضوں میں 780 ارب روپے کی کمی،اسٹیٹ بینک کی رپورٹ جاری
محمد اورنگزیب نے بتایا کہ حکومت نے پائلٹ منصوبوں کے ذریعے پیداوار اور آمدن میں نمایاں اضافہ دیکھا ہے۔ سیٹلائٹ کے ذریعے فصلوں کی نگرانی اور جدید خدمات کی فراہمی جیسے اقدامات سے چھوٹے کسانوں کو باضابطہ قرضوں تک بہتر رسائی حاصل ہوئی ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ حکومت بینکوں کو زرعی قرضوں کے فروغ کے لیے ترغیبات فراہم کر رہی ہے، جن میں فرسٹ لاس گارنٹی، سبسڈی والے قرضے اور بلا ضمانت فنانس کی سہولتیں شامل ہیں۔
وزیرِ خزانہ نے بتایا کہ پاکستان موسمیاتی لچکدار زراعت کے فروغ کے لیے فعال اقدامات کر رہا ہے، کیونکہ حالیہ سیلابوں نے چاول کی فصل کو شدید نقصان پہنچایا۔ حکومت زرعی تحقیق، ٹیکنالوجی کے فروغ اور کولڈ چین انفراسٹرکچر میں نجی سرمایہ کاری کی بھرپور حوصلہ افزائی کر رہی ہے۔
انہوں نے انکشاف کیا کہ ایک ہزار پاکستانی طلبہ اس وقت چین میں اعلیٰ زرعی تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ وزارتِ خزانہ کے مطابق، رواں سال چاول کی برآمدات ساڑھے تین ارب ڈالر تک پہنچنے کی توقع ہے۔
محمد اورنگزیب نے کہا کہ ٹیکس اصلاحات، توانائی اور نجکاری کے اقدامات سے پاکستان نے اقتصادی استحکام حاصل کیا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ جی-24 اجلاس میں بھی پاکستان کی اصلاحات کو سراہا گیا جبکہ آئی ایم ایف کی منیجنگ ڈائریکٹر نے پاکستان کی پالیسیوں کو مؤثر قرار دیا۔
وزیرِ خزانہ نے اپنے خطاب کے اختتام پر کہاہماری پالیسی مداخلت نہیں، سہولت فراہم کرنا ہےتاکہ کسان، نجی شعبہ اور ٹیکنالوجی مل کر پاکستان کی زرعی معیشت کو ایک نئے دور میں داخل کریں۔