اقوامِ متحدہ کی جانب سے سیکورٹی کونسل کو پیش کی گئی 36ویں رپورٹ میں واضح طور پر بتایا گیا ہے کہ افغانستان میں فتنہ الخوارج (ٹی ٹی پی) اور القاعدہ جیسے دہشت گرد گروہوں کی موجودگی کے ٹھوس اور ناقابل تردید شواہد موجود ہیں۔ یہ رپورٹ تجزیاتی معاونت اور پابندیوں کی نگران ٹیم نے 24 جولائی 2025ء کو پیش کی تھی۔
رپورٹ کے صفحہ 16 میں کہا گیا ہے کہ افغانستان کی De facto حکام نے دہشت گرد گروہوں، بشمول القاعدہ اور ان کے اتحادیوں، کو کھلی چھوٹ دی ہوئی ہے، جس سے یہ گروہ وسطی ایشیا اور دیگر ممالک کی سلامتی کے لیے ‘‘سنگین خطرہ’’ بنتے جا رہے ہیں۔ رپورٹ میں مزید نشاندہی کی گئی کہ القاعدہ کی سرگرمیاں زیادہ تر عرب نژاد جنگجوؤں سے منسلک ہیں وہی جنگجو جنہوں نے ماضی میں طالبان کے ساتھ مل کر لڑائی کی تھی۔
رپورٹ کے اہم نکات درج ذیل ہیں
القاعدہ کے جنگجو افغانستان کے چھ صوبوں غزنی، ہلمند، قندھار، کنڑ، ارزگان اور زابل میں پائے جاتے ہیں۔افغانستان میں القاعدہ سے منسلک متعدد تربیتی مراکز کی موجودگی کی اطلاعات موصول ہوئی ہیں؛ جن میں تین نئے مراکز کی نشاندہی کی گئی جہاں القاعدہ اور ٹی ٹی پی (فتنہ الخوارج) کے دہشت گردوں کو مشترکہ طور پر تربیت دی جاتی ہے۔
پیراگراف 19 کے مطابق، ٹی ٹی پی (فتنہ الخوارج) کے پاس تقریباً 6,000 جنگجو موجود ہیں اور انہیں مختلف اقسام کے ہتھیاروں تک رسائی حاصل ہےجس نے ان کے حملوں کی ہلاکت خیزی میں اضافہ کر دیا ہے
رپورٹ میں خبردار کیا گیا ہے کہ ان گروہوں کی موجودگی اور ان کو ملنے والی سہولت کاری خطے کے پائیدار امن اور علاقائی سلامتی کے لیے سنگین خطرہ ہے، اور کہا گیا ہے کہ دہشت گردوں کی سہولت کاری کے خاتمے کے لیے فوری اور مربوط اقدامات ضروری ہیں۔
اقوامِ متحدہ کی اس رپورٹ کو سیکورٹی کونسل کے اجلاسوں میں بھی زیرِ بحث لانے کی توقع ہے، جہاں رکن ممالک سے تقاضا کیا گیا ہے کہ وہ معلومات کے تبادلے، نگرانی میں اضافہ اور پابندیوں کے نفاذ سمیت عملی اقدامات کریں تاکہ ان خطرات کا مؤثر تدارک ممکن بنایا جا سکے۔