وزیر دفاع خواجہ آصف نےکہا ہےکہ افغانستان کے ساتھ اختلافات کوئی نئی بات نہیں، تاہم 25 اکتوبر کو ہونے والے اجلاس میں معاہدے سے متعلق مزید نکات پر بات چیت اور فیصلے کیے جائیں گے۔
خواجہ آصف کا کہنا تھا کہ اگر طالبان حکومت نے خوراج اور ٹی ٹی پی کی پشت پناہی جاری رکھی تو یہ ایک افسوسناک امر ہوگا۔ انہوں نے مزید کہا کہ حکومت افغان ٹرانزٹ ٹریڈ کے معاملے پر نظرثانی کرے گی کیونکہ پاکستان افغانستان کے ساتھ ایک مستقل اور پائیدار حل چاہتا ہے۔
برطانیہ میں نام نہاد بلوچ نیشنل موومنٹ کا بے بنیاد پروپیگنڈا بے نقاب ہو گیا
وزیر دفاع نے بتایا کہ استنبول میں ہونے والے آئندہ مذاکرات میں تمام اہم معاملات پر گفتگو متوقع ہے۔ اگر ان مذاکرات میں پیش رفت ہوتی ہے تو یہ ایک مثبت پیش رفت ہوگی، تاہم یہ سمجھنا درست نہیں کہ معاہدہ ہونے کے بعد تمام معاملات خود بخود معمول پر آجائیں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ معاہدے پر عملدرآمد ایک طے شدہ طریقہ کار کے تحت ہوگا، اور امکان ہے کہ ترکیے میں مذاکرات 25 سے 27 اکتوبر تک جاری رہیں۔ خواجہ آصف نے اس بات کی بھی تصدیق کی کہ ٹی ٹی پی کی قیادت افغانستان میں موجود ہے اور اس حوالے سے پاکستان کے پاس ٹھوس شواہد موجود ہیں۔
انہوں نے کہا کہ دہشت گرد افغان علاقوں میں عام شہریوں میں چھپ کر رہتے ہیں اور ہمیں ایسے ثبوت ملے ہیں جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ ان دہشت گردوں کو افغانستان کے اندر سے ہدایات دی جاتی ہیں۔
وزیر دفاع کے مطابق معاہدہ ایک صفحے پر مشتمل ہے جس میں چار پیراگراف شامل ہیں، تاکہ بعد میں افغان طالبان یہ مؤقف اختیار نہ کر سکیں کہ کسی مخصوص علاقے کے لوگ اس معاہدے کو تسلیم نہیں کرتے۔
یاد رہے کہ حالیہ دنوں میں پاکستان اور افغانستان کے درمیان قطر اور ترکیے کی ثالثی سے جنگ بندی پر اتفاق ہوا تھا، جس کے بعد دونوں ممالک نے ترکیے میں مزید مذاکرات اور دیرپا امن کے لیے ایک مستقل مکینزم بنانے پر آمادگی ظاہر کی ہے۔