پاکستان نے بھارت اور افغان طالبان کے درمیان بظاہر بڑھتے ہوئے تعاون کو اپنی آبی سلامتی کے لیے سنگِ میل خطرہ قرار دے دیا ہے اور ایسی کسی بھی آبی جارحیت کے خلاف خودمختارانہ اور جامع دفاعی حکمتِ عملی اپنانے کا عندیہ دیا ہے۔
حکام اور ماہرین کا کہنا ہے کہ انڈیا ٹو ڈے کی 24 اکتوبر 2025 کو شائع رپورٹ کے مطابق بھارت افغان طالبان رجیم کے ذریعے دریائے کنڑ (کابل) کے بیسن میں ڈیم سازی کے منصوبوں میں مالی و تکنیکی شراکت داری کر رہا ہے۔
رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ طالبان رجیم بھارت کے تعاون سے نغلو، درونتہ، شاہتوت، شاہ واروس، گمبیری اور باغدرہ جیسے ڈیم تعمیر کروا کر پاکستان کو پانی کی رسد روکنے کی کوشش کر رہا ہے۔
پاکستانی سرکاری ذرائع اور آبی و قانونی ماہرین اس خدشے کا اظہار کر رہے ہیں کہ اگر یہ منصوبے عملی جامہ پہن جائیں تو دریائے کابل سے سالانہ اوسطاً ملنے والا تقریباً 16.5 ملین ایکڑ فٹ پانی متاثر ہو سکتا ہے جس کا براہِ راست اثر خیبرپختونخوا کے اضلاع پشاور، چارسدہ اور نوشہرہ میں گندم، مکئی اور گنے کی پیداوار پر پڑ سکتا ہے۔
حکام نے باور کرایا ہے کہ پانی پاکستان کی سلامتی، زراعت اور معیشت کی شہ رگ ہے اور کسی بھی بیرونی دباؤ یا آبی جارحیت کو برداشت نہیں کیا جائے گا۔ انہیں خدشہ ہے کہ بھارت-افغان گٹھ جوڑ کا ہدف پاکستان کے آبی نظام کو مشرق و مغرب دونوں جانب سے متاثر کرنا ہے۔
ان تناظرات میں حوالہ دیا جاتا ہے کہ بھارت نے پہلے سندھ طاس معاہدہ یک طرفہ طور پر معطل کر کے بین الاقوامی آبی معاہدوں کے خلاف ورزی کی تاریخ رقم کی ہے اور اب افغانستان میں ڈیموں کے ذریعے بیسن پر اثر انداز ہونے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
آبی و قانونی ماہرین کے مطابق پاکستان ایک جامع دفاعی حکمتِ عملی پر غور کر رہا ہے جس میں سب سے نمایاں قدم چترال ریور ڈائیورشن پروجیکٹ ہے۔ اس منصوبے کا مقصد دریائے چترال کو افغانستان میں داخل ہونے سے پہلے ہی سوات بیسن کی طرف موڑنا ہے،
جس سے نہ صرف آبی رسد کی خودمختاری کو محفوظ بنایا جائے گا بلکہ بقول ماہرین 2,453 میگاواٹ صاف اور قابلِ تجدید توانائی پیدا کرنے کی صلاحیت بھی حاصل ہو گی، نئی زمین زیرِ کاشت لائی جا سکے گی، سیلابی خطرات میں کمی آئے گی اور ورسک و مہمند ڈیمز کے ذخائر میں اضافہ ہوگا۔
حکام کا دعویٰ ہے کہ یہ اقدام بین الاقوامی قانون کے عین مطابق ہے اور پاکستان کی آبی خودمختاری کے مکمل دائرے میں آتا ہے۔
سفارتی حلقوں میں خدشات کا اظہار کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ بھارت کی جانب سے افغان طالبان رجیم کو ایک ارب امریکی ڈالر تک کی مالی امداد کی پیشکش اور افغان وزیرِ خارجہ کے حالیہ دورے سے یہ حکمتِ عملی مزید واضح ہوئی ہے۔
پاکستانی عوام اور سیاسی قیادت میں اس مسئلے پر اتفاقِ رائے پایا جاتا ہے کہ بھارت کی افغان سرزمین کے ذریعے پاکستان کے خلاف آبی مہم ناقابلِ قبول ہے اور ہر سطح پر اس کے منفی اثرات کا مقابلہ کیا جائے گا۔
سرکاری بیان میں کہا گیا کہ پاکستان کسی بھی قسم کی آبی جارحیت کے بارے میں واضح اور دو ٹوک موقف رکھتا ہے پانی پر کسی بھی ملک کا دباؤ برداشت نہیں کیا جائے گا۔ مزید کہا گیا کہ ملک کی آبی سلامتی، زراعت اور معیشت کے تحفظ کے لیے تمام مناسب، قانونی اور تکنیکی اقدامات بروئے کار لائے جائیں گے۔
یہ معاملہ خطے میں پانی کے وسائل، بین الاقوامی معاہدوں اور جغرافیائی سیاسی اثر و رسوخ کے تناظر میں سامنے آیا ہے اور آئندہ دنوں میں اس پر سفارتی سطح اور عالمی فورموں میں بحث متوقع ہے۔


