کیاامریکا نےایک انتہائی طاقتورخفیہ فوج تیار کرلی ہے؟

Date:

دنیا پرحکمرانی کا خوب،امریکا کےہرمخالف پرنظررکھنےکا مشن،امریکا نےکیسےایک انتہائی طاقتورخفیہ فوج تیار کرلی؟ اس فوج کی تعداد اوربجٹ کتنا ہے اور یہ دنیا کے کن کن ممالک میں آپریٹ کرتی ہے، اس فوج کے اہلکار اپنی شناخت کیوں چھپاتے ہیں، ان سوالات کا جواب ہم اس مضمون میں تلاش کرنے کی کوشش کریں گے اور دیکھیں گے کہ امریکی نیشنل سکیورٹی کے نام پرشروع کئے گئےپروگرام سگنیچرریڈکشن کی کہانی کیا ہے

جب آمریکا کوسامراج کے شکنجوں سے آزاد کرایا گیا تو اس آزاد ریاست کے قیام کا ایک مقصدانسانیت کی آزادی،جمہوریت اور انسانی حقوق کا بول بالا کرنا تھا۔مگر جب انیسویں صدی میں امریکا عسکری اورمعاشی لحاظ سےعالمی قوت بن گیاتواعلی اخلاقی اقدارگئے تیل لینے،اورامریکی حکمران استعماری حکمران بن گئے۔وہ طاقت کےنشےمیں آ کرکمزور ممالک پرچڑھ دوڑنے لگےتاکہ ان کےوسائل پر قابض ہو کرفائدہ اٹھا سکیں

اپنےمفادات کی تکمیل کے لیے امریکیوں نے ہر ملک میں اپنے جاسوس چھوڑ دئیے۔جو اس ملک میں نہ صرف حکومت کی سن گن لیتے بلکہ امریکا کا اثرورسوخ بڑھانے کی بھی ہر ممکن کوشش کرتے ہیں۔ امریکا نے خاص طور پر عالم اسلام میں ایسے متعدد حکمران تبدیل کرکے ان کی جگہ کٹھ پتلیوں کو بٹھا دیا جوامریکی مفادات پورے کرنے میں رکاوٹ بن رہے تھے

اب چونکہ اکیسویں صدی میں چین اور روس کے اتحاد سے امریکا کا اثر ورسوخ کم ہو رہا ہے۔افغانستان،عراق اور شام سمیت کئی ممالک کے خلاف جارحیت کے باؤجودمسلسل شکستوں سےبھی امریکی فخروغرور کو دھچکا لگا ہے۔ مگر امریکی حکمران طبقہ آسانی سے ہار ماننے کیلئے تیار نہیں اسی لیےوہ پچھلے پندرہ سال کے دوران خاموشی سے ایک خفیہ ایلیٹ فوج تیار کر چکا ہے اس خفیہ فوج یا سیکرٹ آرمی کا بنیادی کام یہ ہے کہ وہ چوری چھپےدنیا کے تمام انسانوں اورممالک خصوصاً امریکا کے ہر مخالف پر نظر رکھ سکے

معروف امریکی محقق اور صحافی ولیم ارکین کی تحقیق کے مطابق اس سیکرٹ آرمی کا حجم ساٹھ ہزار سے زائد ہے۔اس کی نفری میں مرد وخواتین دونوں شامل ہیں۔جوپاکستان سے مشرق وسطی اور جنوب میں مغربی افریقہ تک کام کر رہے ہیں۔

یعنی ہم کہہ سکتے ہیں کہ آج پاکستان میں بھی ہمارے اردگرد سینکڑوں خفیہ امریکی اہلکار گھوم رہے ہوں لیکن ہمیں ان کی موجودگی کا احساس نہ ہو

خیرامریکی جریدے نیوز ویک کے مطابق یہ فورس سی آئی اے کے خفیہ شعبے سے دس گنا بڑی ہے اور اس میں صرف خفیہ اہلکار ہی کام کرتے ہیں۔ جن میں سے کچھ دنیا بھر کی بڑی کمپنیز میں ملازمت بھی کر رہے ہیں۔
امریکی محکمہ دفاع پینٹاگون کے تحت یہ سیکرٹ فوج سگنیچر ریڈکشن نامی پروگرام کے تحت یہ سرگرمیاں انجام دے رہی ہے۔ امریکی محکمہ دفاع اس اصطلاح کوسرکاری طورپرتسلیم نہیں کرتا۔تاہم ان خفیہ کارروائیوں کودنیا بھر میں امریکی آپریشنز کو محفوظ بنانے کے لیے کیے جانے والے اقدامات کے طور پر بیان کیا جاتا ہے۔

دراصل سگنیچر ریڈکشن اس ٹکنالوجی کا نام ہے جواشیا سے پھوٹنے والی شعاعیں مدھم کرنےمیں کام آتی ہے۔ امریکی سیکرٹ آرمی پر یہ نام بخوبی فٹ آتا ہےکیونکہ اس کے ارکان بھی اپنی شناخت چھپانے کی بھرپور کوششیں کرتے ہیں۔ یعنی اس کے ایجنٹس حقیقی زندگی کے ساتھ ساتھ آن لائن بھی فعال ہیں اور ان میں سے کئی فوجی، عام شہری یا ٹھیکیدارکے طورپر کام کرتے ہیں جو غلط شناخت کی مدد سے خود کو چھپا کر رکھتے ہیں۔

صحافی ولیم ارکین کے مطابق اس فوج کے سبھی ارکان جعلی کاغذات رکھتے ہیں تاکہ اپنی اصل شناخت پوشیدہ رکھ سکیں۔وہ اپنے نام ہی نہیں جسمانی ہئیت بدل کر بھی کارروائیاں کرتے ہیں۔اس ضمن میں جیمز بانڈ فلموں کی طرح خصوصی لیبارٹریاں بنائی گئی ہیں جہاں ماہرین خفیہ فوج کے ارکان کے کام آنے والے مختلف آلات وسامان تیار کرتے ہیں۔یہ آلات پھر آپریشنزانجام دینے میں مدد دیتے ہیں۔

نیوز ویک کی تحقیقات میں یہ بھی سامنے آیا کہ شمالی کیرولینا میں موجود ایک کمپنی ایجنٹس کو ایسی تربیت دیتی ہے کہ وہ اپنی عمراور ظاہری حلیہ بھیس بدل کر تبدیل کر لیتے ہیں جب کہ انہیں سلیکون کی آستین تک فراہم کی جاتی ہے جس سے وہ اپنی انگلیوں کے نشانات بدل لیتے ہیں۔

ولیم ارکین کے مطابق یہ ایجنٹس عام آدمیوں میں گھل مل جاتے ہیں اور ٹارگٹ شدہ مردو زن ہوں یا ملک کے پل پل کی خبر امریکی اسٹیبلشمنٹ تک پہنچاتے ہیں۔ان کے بقول امریکی حکومت نے نیشنل سیکورٹی کے نام پر دنیا بھر میں یہ خفیہ ڈراما رچا رکھا ہے اور وہ بے دھڑک بنی نوع انسان کی پرائیوسی میں دخل اندازی کر رہی ہے۔

مانا جاتا ہے کہ چین روس،شمالی کوریا اور ایران ان چند ممالک میں شامل ہیں جنہیں امریکہ کے مخالفین کے طور پر دیکھا جاتا ہے اور یہ ایجنٹس ان ممالک میں فعال ہیں۔ آرکین کے مطابق اس ایجنسی کا مبینہ بجٹ نوے کروڑ ڈالر ہے۔

امریکی سکرٹ آرمی کے تین بڑے حصے یا دستے ہیں۔پہلے دستے کا نام اسپیشل آپریشنز ورلڈ ہے۔اس حصے سے تقریباً تیس ہزار اہلکاروابستہ ہیں۔ان کی اکثریت غیر امریکی ہے۔اس دستے کے ارکان پوری دنیا میں امریکی اسٹیبلشمنٹ کے احکامات پر تقویض کردہ آپریشن انجام دیتے ہیں۔اسپشل آپریشنز ورلڈ کے کارندے بھیس بدل کر اور مختلف آلات کی مدد سے اپنا کام انجام دیتے ہیں۔جب کوئی امریکی ایسے آپریشن کا حصّہ بنے تو وہ عموماً حقیقی نام سے ٹارگٹ ملک تک سفر کرتا ہے۔مگر وہاں پہنچتے ہی بھیس بدل کر اپنی اصلی شناخت چھپا لیتا ہے۔

امریکی سیکرٹ آرمی کا دوسراحصہ ہیومن انٹیلی جنس آپریٹرکہلاتا ہے، یہ ایجنٹ امریکی ہو سکتے ہیں اور مقامی بھی،تاہم جن ممالک میں امریکا ناپسندیدہ حیثیت رکھتا ہے،وہاں خصوصاً مقامی ایجنٹوں ہی سے کام کرائے جاتے ہیں۔اس حصّے کے لوگ اپنے ٹارگٹ افراد کی برقی سرگرمیوں پہ نظر رکھتے ہیں۔یعنی ٹارگٹ شخص ٹیلی فون،موبائل،وائرلیس، سیٹلائٹ فون وغیرہ کے ذریعے کسی سے رابطہ کرے تو وہ گفتگو سننے کی ہر ممکن کوشش کرتے ہیں۔

اس مقصد کے حصول کیلئے جدید ترین جاسوسی کےآلات ان کی بھرپور مدد کرتے ہیں۔ان آلات کی مدد سے ہیومن انٹیلیجنس آپریٹر اس سیل فون ٹاور میں وہ سگنل دریافت کر لیتاہے جس پہ ٹارگٹ شدہ فرد محو گفتگو ہوں۔ہیومن انٹیلی جنس آپریٹروں کا گروہ بھی کئی ہزار مرد وزن پہ مشتمل ہے۔یہ دنیا بھر میں پھیلے ہیں۔اس کے کارندے کوئی نہ کوئی چال چل کر ٹارگٹ شخص کی رہائش گاہ کے نزدیک قیام کرتے ہیں۔وہ پھر اپنے آلات کی مدد سے موبائل فون،وائرلیس،ٹیلی فون وغیرہ پر اس کی گفتگو سننے کی کوشش کرتے ہیں۔

امریکی سیکرٹ آرمی کا تیسرا گروپ سائبر آپریٹرکہلاتا ہے۔اس گروہ میں شامل اہلکار دنیائے انٹرنیٹ میں سرگرم رہتے ہیں۔ان کا پہلا اہم کام امریکا دشمن ممالک ،شخصیات اور تنظیموں کی آن لائن نگرانی کرنا ہے۔اس فہرست میں چین،روس،ایران،وینزویلا بھی شامل ہیں۔تاہم سائبر آپریٹر تقریباً ہر ملک کی جاسوسی کرتے ہیں تاکہ وہاں کی حکومتوں کے عزائم سے باخبر ہو سکیں۔

سائبر آپریٹروں کی دوسری اہم ذمے داری امریکی اسٹیبلشمنٹ کے لیے پروپیگنڈا کرنا ہے۔وہ مختلف طریقوں سے آن لائن دنیا میں امریکی حکومت کا موقف نمایاں کرتے ہیں،چاہے وہ حق وانصاف سے متصادم ہی ہو۔جبکہ امریکا کے دشمنوں کے خلاف جھوٹی خبروں کو پھیلایا جاتا ہے۔اس ضمن میں گوگل کے علاوہ سوشل میڈیا سائٹس مثلاً فیس بک،ٹویٹر،انسٹاگرام ،وٹس اپ وغیرہ سے بھرپور مدد ملتی ہے۔

ولیم ارکین کے مطابق فی الوقت امریکی سیکرٹ آرمی کا یہی تیسرا گروہ سب سے زیادہ فعال ہے۔وجہ یہ ہے کہ انٹرنیٹ کی دنیا میں اپنی شناخت چھپانا آسان ہے۔ یہ گروپ ایسے زبردست سافٹ وئیر رکھتا ہے کہ ٹارگٹ مردو عورت کے سمارٹ فون میں داخل ہو کر اس کی بات چیت سن سکے۔ حتیّ کہ کیمرا چلا کران کی باتیں اور فوٹیج ریکارڈ کر لے کہ وہ کس سے ملتا جلتا ہے۔یہ طریقہ جاسوسی سستا اور سہل ہے،اسی لیے امریکی اسٹیبلشمنٹ اس طریقے کو زیادہ سے زیادہ کارآمد بنانے کے لیے اربوں ڈالر خرچ کر رہی ہے۔

یہ ساری خفیہ جنگیں اپنی جگہ لیکن امریکی اسٹیبلشمنٹ یہ تاریخی سبق بھلا بیٹھی ہے کہ ہر عروج کو آخر زوال آ کر رہتا ہے۔ہر قوم ہمیشہ سربلند نہیں رہتی۔اسے دوسری اقوام کے لیےجگہ خالی کرنا پڑتی ہے۔یہ قانون ِقدرت ہے جس سے فرار ممکن نہیں

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here

Share post:

Subscribe

spot_imgspot_img

Popular

More like this
Related

پی ٹی آئی میں اختلافات شدت اختیار کر گئے، خیبر پختونخوا حکومت خطرے میں؟

پاکستان تحریکِ انصاف (پی ٹی آئی) کے اندرونی اختلافات...

پیپلز پارٹی کا وزیراعظم آزاد کشمیر کو مستعفی ہونے کے لیے دوپہر 2 بجے تک کی مہلت

ذرائع کے مطابق پیپلز پارٹی نے وزیراعظم آزاد کشمیر...

چین، یوکرین جنگ ختم کرانے میں کردار ادا کرے، یورپی یونین

یورپی یونین نے چین پر زور دیا ہے کہ...

مغربی طاقتیں روس کو تقسیم کرنے کی سازش کر رہی ہیں،سیکرٹری روسی قومی سلامتی کونسل

روسی سلامتی کونسل کے سیکریٹری سرگئی شویگو نے الزام...