وفاقی وزیر اطلاعات عطا اللہ تارڈ نے کہا ہے کہ اکتوبر کے مہینے میں استنبول میں پاکستان اور افغان طالبان حکومت کے درمیان مذاکرات ہوئے،
وزیرِ اطلاعات نے بتایا کہ پاکستان نے افغان طالبان سے سرحد پار دہشت گردی، خصوصاً بھارتی حمایت یافتہ فتنہ الخوارج اور فتنہ الہندکے حملوں پر بارہا احتجاج کیا۔ عطا اللہ تارڈ نے کہا کہ پاکستان نے دوحہ معاہدے کے تحریری وعدوں پر عمل درآمد کا مطالبہ کیا اور میزبان ممالک قطر و ترکیہ کی مخلصانہ کوششوں پر شکرگزاری کا اظہار کیا۔
اُن کے بقول مذاکرات کا واحد ایجنڈا افغان سرزمین کو دہشت گردی کے لیے استعمال ہونے سے روکنا تھا اور اس سلسلے میں پاکستان نے ٹھوس اور ناقابلِ تردید شواہد بھی پیش کیے، جنہیں افغان طالبان اور میزبان ممالک نے تسلیم تو کیا مگر کوئی یقین دہانی نہیں کرائی گئی۔
وزیرِ اطلاعات نے کہا کہ افغان وفد مذاکرات کے بنیادی نقطے سے انحراف کرتا رہا، الزام تراشی اور ٹال مٹول کا سہارا لیا اور ذمہ داری قبول کرنے سے گریز کیا، جس کی وجہ سے بات چیت کسی قابلِ عمل نتیجے پر نہ پہنچ سکی۔
اُنہوں نے مزید کہا کہ افغان طالبان کی جانب سے پاکستان مخالف دہشت گردوں کی مسلسل حمایت سے پاکستانی کوششیں بے سود رہیں انھوں نے کہا کہ طالبان کو افغان عوام کی نمائندہ حکومت قرار نہیں دیا جا سکتا، کیونکہ وہ اپنی بقا کے لیے جنگی معیشت پر انحصار کرتے ہیں اور افغان عوام کو غیر ضروری جنگ میں دھکیلنے کی کوشش کرتے ہیں۔
وزیراطلاعات نے یاد دلایا کہ پاکستان نے ہمیشہ افغانستان کے عوام کے امن و خوشحالی کے لیے قربانیاں دی ہیں اور متعدد مذاکرات کیے، مگر افغان فریق نے پاکستان کے نقصانات سے بے نیازی دکھائی۔ چار برسوں کی جانی و مالی قربانیوں کے بعد پاکستان کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو چکا ہے،
انھوں نے کہا کہ قطر اور ترکیہ کی درخواست پر پاکستان نے امن کے لیے ایک اور موقع دیا۔حکومت پاکستان کی اولین ترجیح عوام کی سلامتی ہے اور وہ دہشت گردی کے خلاف ہر ممکن اقدام کرے گی، دہشت گردوں، اُن کے ٹھکانوں اور سہولت کاروں کو نیست و نابود کرنے کے لیے تمام وسائل بروئے کار لائے جائیں گے۔


