حکومت نے کمرشل بنیادوں پر استعمال شدہ گاڑیوں کی درآمد پر 40 فیصد ریگولیٹری ڈیوٹی عائد کرنے کا فیصلہ کیا ہے، جو مارکیٹ میں توازن برقرار رکھنے کے لیے ہر سال مرحلہ وار کم کی جائے گی۔
یہ فیصلہ وفاقی وزیرِ تجارت جام کمال خان اور وزیراعظم کے معاونِ خصوصی برائے صنعت و پیداوار ہارون اختر خان کی زیرِ صدارت آٹو انڈسٹری سے متعلق ایک اعلیٰ سطحی اجلاس میں کیا گیا۔
اجلاس میں پاکستان آٹو پارٹس مینوفیکچررز ایسوسی ایشن اور پاکستان آٹوموٹو مینوفیکچررز ایسوسی ایشن کے نمائندوں نے بھی شرکت کی۔
اجلاس میں آٹو پالیسی، استعمال شدہ گاڑیوں کی درآمد، اور انڈسٹریل فسیلیٹیشن سے متعلق امور پر تفصیلی تبادلہ خیال ہوا۔
جام کمال خان نے اس موقع پر کہا کہ پری شپمنٹ اور پوسٹ شپمنٹ انسپیکشن سسٹم کے نفاذ سے استعمال شدہ گاڑیوں کی درآمد میں شفافیت آئے گی اور بدعنوانی کا خاتمہ ممکن ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ معیاری کنٹرول اور واضح درآمدی قواعد سے آٹو سیکٹر میں اعتماد بڑھے گا اور صنعت کو ترقی کے نئے مواقع ملیں گے۔
وفاقی وزیر نے مزید بتایا کہ حکومت استعمال شدہ گاڑیوں کی درآمدی اسکیموں میں ترامیم پر غور کر رہی ہے تاکہ حقیقی اوورسیز پاکستانیوں کو سہولت دی جا سکے اور ان اسکیموں کے غلط استعمال کی روک تھام ہو۔
اجلاس میں یہ بھی فیصلہ کیا گیا کہ بیگیج، گفٹ اور ٹرانسفر آف ریذیڈنس اسکیموں کے درمیان یکسانیت پیدا کرنے کی تجاویز پر کام کیا جائے گا تاکہ درآمدی عمل مزید منظم ہو سکے۔
ہارون اختر خان نے کہا کہ وزارتِ تجارت اور وزارتِ صنعت کے درمیان قریبی تعاون ایک پائیدار اور عالمی معیار کا آٹو سیکٹر تشکیل دینے کے لیے ضروری ہے۔
دونوں ایسوسی ایشنز کے نمائندوں نے اجلاس کے دوران لوکلائزیشن، وینڈر ڈیولپمنٹ، ٹیرف اسٹرکچر اور ریسرچ اینڈ ڈیولپمنٹ کے حوالے سے اپنی تجاویز بھی پیش کیں۔
جام کمال خان نے واضح کیا کہ حکومت کا مقصد صرف درآمدات پر کنٹرول نہیں بلکہ مقامی مینوفیکچرنگ کے فروغ اور عالمی سطح پر مسابقتی آٹو سیکٹر کی تشکیل ہے تاکہ یہ شعبہ ملکی معیشت میں مضبوط کردار ادا کر سکے۔


