امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور چینی صدر شی جن پنگ کے درمیان جنوبی کوریا کے شہر بوسان میں اہم ملاقات ہوئی، جس میں دوطرفہ تعلقات اور عالمی امور پر تفصیلی تبادلہ خیال کیا گیا۔ ملاقات کے دوران امریکہ نے چین پر عائد محصولات (ٹیرف) میں 10 فیصد کمی کا اعلان کیا۔
ملاقات کے آغاز میں صدر ٹرمپ نے چینی ہم منصب کو خوش آمدید کہتے ہوئے کہا،آپ سے دوبارہ ملاقات خوشی کا باعث ہے، امید ہے کہ آج کی بات چیت انتہائی کامیاب ثابت ہوگی۔انہوں نے اشارہ دیا کہ ممکن ہے چین کے ساتھ تجارتی معاہدہ آج ہی طے پا جائے، اور بتایا کہ کئی نکات پر اتفاقِ رائے ہو چکا ہے۔

چینی صدر شی جن پنگ نے اس موقع پر کہا کہ چین اور امریکہ کو حریف نہیں بلکہ ایک دوسرے کے دوست اور شراکت دار ہونا چاہیے۔ انہوں نے بتایا کہ ٹریڈ ڈیل کے بنیادی نکات پر اتفاق ہوچکا ہے، اختلافات معمول کا حصہ ہیں، اہم بات یہ ہے کہ دونوں معیشتیں مثبت سمت میں آگے بڑھیں۔
شی جن پنگ نے عالمی تنازعات کے حل کے لیے مذاکراتی عمل پر زور دیا اور غزہ میں جنگ بندی کے لیے امریکی کوششوں کو سراہا۔ انہوں نے کہا کہ دونوں ممالک کو ترقی کے لیے ایک ایسا ماحول تشکیل دینا ہوگا جو تعاون، امن اور استحکام کو فروغ دے۔

ملاقات کے بعد صدر ٹرمپ نے ایئر فورس ون میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے اعلان کیا کہ وہ آئندہ سال اپریل میں چین کا دورہ کریں گے، جس کے بعد صدر شی جن پنگ واشنگٹن کا جوابی دورہ کریں گے۔
ٹرمپ نے بتایا کہ ملاقات انتہائی نتیجہ خیز رہی اور کئی اہم فیصلے کیے گئے۔ ان کے مطابق، دونوں ممالک ہر سال تجارتی معاہدے پر ازسرنو مذاکرات کریں گے تاکہ عالمی معیشت کے بدلتے حالات کے مطابق تعاون جاری رہے۔

صدر ٹرمپ نے کہا کہ چین جلد سویا بین کی خریداری دوبارہ شروع کرے گا اور فینٹانائل کی اسمگلنگ روکنے کے لیے اقدامات کرے گا۔ انہوں نے بتایا کہ چین پر ٹیرف 20 فیصد سے کم کر کے 10 فیصد کر دیا گیا ہے، جب کہ چِپس کی فروخت، نایاب معدنیات کی برآمدات اور یوکرین کے مسئلے پر بھی تفصیلی گفتگو ہوئی۔
ٹرمپ کے مطابق، چین پر مجموعی محصولات کی شرح 57 فیصد سے کم کر کے 47 فیصد کر دی گئی ہے۔ تاہم انہوں نے وضاحت کی کہ اس ملاقات میں تائیوان کے معاملے پر کوئی گفتگو نہیں ہوئی۔


