تحریر: انصارمدنی
گلگت کے اکثرعلاقوں میں آج بھی بزرگ بیاک یعنی بیٹھک میں بیٹھتے ہیں جہاں وہ مختلف مسائل پر گفتگو کرتے ہیں، گاؤں کی ایک ایسی بیٹھک میں مجھے بھی موقع ملاکہ میں گلگت بلتستان کی یومِ آزادی کے حوالے سے بزرگوں کے مشاہدت سے فیض پاؤں، چنانچہ اس موقع کو غنیمت جان کرمیں نے بزرگ سے چند سوالات پوچھے۔
بزرگ نے نہایت سکون سے ان سوالات کو سنا پھر کہنے لگے میں نے اپنے بزرگوں سے جو کچھ سنا ہے وہ میں آپ کو بتا دیتا ہوں، البتہ میری اس حوالے سے کوئی تحقیق نہیں ہے اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ گلگت بلتستان کی تاریخی، ادبی، ثقافتی، مذہبی پس منظرکو سمجھنے کے لیے ہمارے پاس کوئی مستند کتاب دستیاب نہیں ہے البتہ غیرمقامی لوگوں کے سفرناموں، ذاتی ڈائریوں یا ان کے مشاہدات پر ہم انحصار کرتے ہیں۔ ممکن ہے آنے والے وقتوں میں گلگت بلتستان کے محققین اس طرف متوجہ ہوں اور کوئی معیاری کام سامنے لاسکیں۔
پہلا سوال: گلگت بلتستان میں بسنے والے لوگ کہاں سے آئے ہوئے ہیں؟
بزرگ کہنے لگے کہ گلگت بلتستان کی قدیم تجارتی شاہراہ، شاہرائے ریشم ہے، اس راستے دنیا کے مختلف ممالک سے تاجر، مہم جو، فوجی، شکاری، خانہ بدوش، اور مہاجر اقوام آ کر آباد ہوئی ہیں۔ گلگت، یاسین، غذر، پونیال، ہنزہ، نگر میں آباد قوموں کے بارے میں غالب خیال یہی ہے کہ یہاں بسنے والے لوگ زیادہ تر داریائی، تبتی اور وسط ایشیائی النسل ہیں، داریائی نسل Dardic Stock قدیم دردی قوم کے وارث ہیں جو شمالی پاکستان اور مشرقی افغانستان سے یہاں آئے۔نگر اور ہنزہ کے قدیم باشندوں کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ لوگ تبت سے مغلیہ عہد میں یہاں آئے ہیں، جبکہ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ ایران اور وسطِ ایشیا سے بھی یہاں آکر بسے ہیں۔
بلتستان کے لوگ زیادہ تر تبتی النسل ہیں۔ یہ لوگ قدیم تبت سے آکر بلتستان میں آباد ہوئے ہیں ۔ دینِ اسلام کی ترویج کے بعد یہاں کی ثقافت نے تبتی اور اسلامی تہذیب سے حسن پایا ہے، اکثراہلِ سخن بلتستان کو بلتی تبت یا چھوٹا تبت بھی لکھتے ہیں۔
دیامر اور استور کے علاقے تاریخی طور پر کشمیر، چلاس، کوہستان اور گندھارا کی تہذیبوں سے جڑے رہے۔ یہاں کے لوگ بھی داریائی Dardic نسل کے ہیں۔ ان کی زبانیں شینا اور کھوار کے خاندان سے تعلق رکھتی ہیں۔ یہ لوگ قدیم آریائی و دردی قبائل کے وارث ہیں۔
گلگت بلتستان میں بولی جانے والی معروف زبانوں میں شینا، گلگت، دیامر، استور میں، جبکہ بلتی زبان، بلتستان میں۔ بروشسکی زبان ، ہنزہ اور نگر میں۔ جبکہ وخّی زبان گوجال اور یاسین میں۔ اور کھوار زبان غذر کے کچھ حصوں میں بولی جاتی ہے۔ یہ لسانی تنوع اس بات کا ثبوت ہے کہ یہاں کے لوگ مختلف لسانی و نسلی پس منظر سے آ کر یہاں آباد ہوئے ہیں۔
دوسرا سوال: اتنے مختلف النسل لوگوں پر ایک راجہ کیسے حکمرانی کرتا تھا؟
بزرگ کہنے لگے کہ یہی وجہ تھی کہ ابتدا میں پورا گلگت بلتستان ایک راجہ کے زیرِ تسلط نہیں تھا بلکہ کئی چھوٹی چھوٹی ریاستوں میں منقسم تھے ۔ جہاں کئی راجہ نظامِ حکومت چلاتے تھے۔ یہ وادیاں اونچے پہاڑ، تنگ وادیاں، دریا اور درّوں میں آباد تھیں اور ہر وادی قدرتی طور پر ایک قلعہ میں رہتی تھیں۔ جیسے ریاستِ نگر، ریاستِ ہنزہ، ریاستِ یاسین،ریاستِ پونیال،ریاستِ چلاس اور ریاستِ بلتستان وغیرہ۔
ان چھوٹی ریاستوں کے حکمران آئے دن ایک دوسرے کے خلاف جنگیں لڑتے تھے۔ بعض اوقات یہاں کے حکمران ایک دوسرے کے قریب آتے تھے، آپس میں شادیاں بھی کرتے تھے،ایک دوسرے کی مدد کے لیے پہنچ جاتے تھے۔اور مشترکہ دشمن سے لڑنے کے لیے متحد ہوجاتے تھے۔ یوں طاقتور راجہ آہستہ آہستہ اپنے اثرو رسوخ دوسرے علاقوں تک بڑھاتاتھا۔ اس کے علاوہ اسلام کے پھیلاؤ خاص طور پرچودھویں سے سترھویں صدی کے دوران مقامی قبائل کو متحد کرنے میں بڑا کردار ادا کیا۔
اس عہد میں مختلف صوفیاء و مشائخ نے لوگوں کو اسلام کے تحت ایک شناخت دی۔ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ لوگوں کا مذہب مشترک ہو تو ایک دوسروں کے ساتھ قربتیں بڑھتی ہیں اور یہی اتحادومحبت کے رویے سماجی حسن کا باعث بنتی ہیں۔
اس عہدمیں جب ایک راجہ کسی دوسری ریاست پر قبضہ کرتا تھا تو وہاں کے مقامی سرداروں کو عہدے اور مراعات دیتا، ان کی خودمختاری جزوی طور پر برقرار رکھتا اور مجموعی وفاداری مرکزی راجہ کے ساتھ جوڑ دیتا۔ یوں ان کے درمیان وفاداری اور مفاد کا رشتہ قائم رہتا۔ اور وہ ایک راجہ کے ماتحت کام کرتے تھے۔
جیسے بلتستان میں، راجہ شیر علی خان انچن نے سولہویں صدی میں مختلف علاقوں کو فتح کر کے ایک مضبوط ریاست قائم کی، ہنزہ اور نگر میں ’’میر‘‘ کے نظام نے مرکزی اختیار کے ساتھ مقامی سرداروں کی وفاداری کو جوڑا۔ گلگت میں مختلف چھوٹی ریاستیں بعد میں ڈوگرہ اور برطانوی ایجنسی کے زیرِ انتظام آئیں۔
تیسرا سوال: جب یہاں کے لوگ مختلف راجاؤں کے ماتحت زندگی گزار رہے تھے تو پھر ڈوگرہ کی راج میں کیسے آئے؟
بزرگ کہنے لگے کہ تقریباً اٹھارویں اور انیسویں صدی تک گلگت بلتستان میں کئی چھوٹی خودمختار ریاستیں تھیں، ہنزہ، نگر، یاسین، پونیال، غذر، بلتستان، چلاس، داریل، تانگیر وغیرہ۔ ہر ایک پر الگ راجہ یا میر حکمران تھا۔ ان کے درمیان اکثر باہمی جنگیں ہوتی رہتی تھیں، وہ لوگ ایک دوسرے سے بدلہ لینے اور جوابی حملے کرتے رہتے تھے، یہ انتشار بعد میں بیرونی قوتوں کے لیے راستہ بنا۔
۱۸۴۰ء کی دہائی میں کشمیر پر ڈوگرہ فوجنے قبضہ کیا۔ ان کا سربراہ گلاب سنگھ، جو بعد میں ۱۸۴۶ء کے معاہدہ امرتسر کے تحت جموں و کشمیر کا مہاراجہ بن گیا۔ انگریزوں نے گلاب سنگھ کو کشمیر پچھتر لاکھ نانک شاہی روپے میں بیچ دیا، اور اسی کے ساتھ گلگت بلتستان بھی ریاست جموں و کشمیر کے ساتھ شامل کر دیا گیا۔ یعنی گلگت بلتستان پہلی بار انگریزوں کے فیصلے سے ڈوگرہ کے قبضے میں گیا، جبکہ گلگت بلتستان کے لوگ اس فیصلے سے نالاں تھے ،
یوں ڈوگرہ فوج ۱۸۴۲ء سے ۱۸۶۰ء کے عرصے میں بلتستان سے ہوتے ہوئے گلگت کی طرف فوجی مہمات شروع کیں، بلتستان کے راجہ احمد شاہ کو شکست ہوئی۔ یاسین کے راجہ گوہر امان نے سخت مزاحمت کی لیکن ۱۸۶۰ء میں ان کی وفات کے بعد مزاحمت کمزور پڑ گئی۔ریاستِ ہنزہ، ریاستِ نگر اورریاستِ گلگت میں لڑائیوں کے بعد ڈوگرہ فوج نے قبضہ جما لیا۔ یوں راجوں کی خودمختار حکومتیں ختم ہو گئیں۔
چوتھا سوال: ڈوگرہ راج سے پھر برطانیہ کے زیرِ انتظام کیسے آئے؟
بزرگ کہنے لگے کہ روس کی وسطی ایشیا میں پیش قدمی سے برطانیہ کو خطرہ لاحق ہوا، چنانچہ انہوں نے ۱۸۸۹ء میں گلگت کو ایجنسی کا نام دے کر یہاں کا انتظام وانصرام سنبھال لیا۔ بظاہر حکومت ڈوگرہ کے پاس تھی، مگر عملاً اختیارات برطانیہ کے پاس تھے۔ یعنی انتظامی طور پر یہ علاقہ ڈوگرہ ریاست کا حصہ رہا، لیکن اصل طاقت برطانوی پولیٹیکل ایجنٹ کے پاس تھی۔
پانچواں سوال: کیا ان مہمات میں برطانیہ کا کوئی بڑا فوجی اعزاز کسی کو ملا ہے؟
بزرگ کہنے لگے بالکل برطانیہ کا سب بڑا فوجی اعزاز ’’وکٹوریاکراس‘‘ گلگت شہر سے جب آپ ہنزہ کی طرف جاتے ہیں تو نلت گاؤں جو ضلع نگر میں آتا ہے، جب یہاں British Indian Army نے حملہ کیا توقلعہ سے سخت مزاحمت ہوئی ، یہ قلعہ فتح کیا گیا توBritish Indian Army کے تین فوجیوں کو اس اعزاز سے نوازا گیا۔ یہ تینوں اعزازات ایک ہی مہم جسے ہنزہ نگر۱۸۹۱ء مہم کے نام سے یاد کیا جاتاہے ، یہ تینوں وکٹوریا کراس آج بھی لنڈن برٹش آرمی میوزیم میں محفوظ ہیں۔
چھٹا سوال: میجر ولیم الیگزینڈر براؤن ، برٹش انڈین آرمی کے آفسر تھے یا گلگت اسکاوٹ ۔
بزرگ کہنے لگے کہ میجر براؤن برٹش انڈین آرمی کے افسر تھے۔ تقسیمِ ہند ۱۹۴۷ء کے وقت وہ گلگت اسکاوٹس کے کمانڈنٹ کے طور پر خدمات انجام دے رہے تھے۔ اس وقت برطانوی حکومت نے گلگت کو ریاست جموں وکشمیر کے حکمران مہاراجہ ہری سنگھ کے حوالے کر دیا تھا، لیکن عملی طور پر گلگت اسکاوٹس برطانوی تربیت یافتہ مقامی فورس تھی جس پر میجر براؤن کی کمان تھی۔ اور گلگت اسکاوٹس کی بنیاد یکم نومبر ۱۹۱۳ء کو برطانوی حکومت ہند نے رکھی تھی۔
اس کے قیام کا مقصد یہ تھا کہ شمالی سرحدوں خصوصاً چین، روس اور افغانستان کی سمت پر نگرانی اور دفاع مضبوط کیا جا سکے۔ اس وقت گلگت، برٹش ایجنسی کا حصہ تھا۔ابتدائی طور پر اس فورس میں زیادہ تر مقامی افراد کو بھرتی کیا گیا۔ ان کا کام سرحدی گشت، جاسوسی، اور برطانوی مفادات کا تحفظ تھا۔ یہ فورس بعد میں تقسیمِ ہند کے وقت میجر براؤن کی قیادت میں گلگت بغاوت یکم نومبر ۱۹۴۷ء میں مرکزی کردار ادا کرتی ہے۔
ساتواں سوال: میجر ولیم الیگزینڈر براؤن نے اپنی کمان کے خلاف بغاوت کا کیوں ساتھ دیا؟
بزرگ کہنے لگے کہ اس نکتے کو سمجھنے کے لیے ہمیں ایک جانب میجر ولیم الیگزینڈر براؤن کی رائے کو جاننا ہوگا کہ وہ اس حوالے سے کیا لکھتے ہیں، پھر اس عہدکے سیاسی حالات کس قسم کے تھے انہیں بھی سمجھنا ضروری ہے۔
“I could not, in good conscience, allow the people of Gilgit to fall under a Hindu ruler whom they despised and whose religion they did not share.”
میں اپنے ضمیر کے مطابق یہ برداشت نہیں کر سکتا تھا کہ گلگت کے مسلمان عوام ایک ہندو حکمران کے ماتحت آ جائیں جس سے وہ نفرت کرتے ہیں اور جس کے مذہب سے ان کا کوئی تعلق نہیں۔
“The people of Gilgit were Muslims to the core, and they had the right to decide their own future — not to be handed over like cattle to a ruler sitting hundreds of miles away in Srinagar.”
گلگت کے لوگ سچے مسلمان تھے۔ انہیں اپنا مستقبل خود طے کرنے کا حق حاصل تھا، نہ کہ سینکڑوں میل دور سری نگر میں بیٹھے کسی حکمران کے ہاتھ فروخت ہونے کا۔
یہ اقتباسات میجر براؤں کی ذاتی ڈائری سے ہیں جو بعد میں، “The Gilgit Rebellion: The Major Who Mutinied in 1947” کے نام سے کتابی صورت میں دستیاب ہے۔اس کے علاوہ اس عہد کے عمومی حالات کچھ اس طرح کے تھے، ۱۹۴۷ء میں جب برصغیر تقسیم ہوا تو گلگت ایجنسی جو برطانوی کنٹرول میں تھی اسے برطانوی حکومت نے ریاست جموں و کشمیر کے حکمران مہاراجہ ہری سنگھ کے حوالے کر دیا۔
اس سے پہلے گلگت کے لوگ مقامی راجاؤں کے ماتحت زندگی گزار رہے تھے وہ کسی بیرونی طاقت کے زیرِ اثر نہیں تھے، جس کی وجہ سے وہ ڈوگرہ راج میں خوش نہیں تھے۔ میجر ولیم براؤن اُس وقت گلگت اسکاوٹس کے کمانڈنٹ تھے، یہ فورس مقامی لوگوں پر مشتمل تھی، اور وہ سب ڈوگرہ راج سے نفرت کرتے تھے۔گلگت کے عوام ڈوگرہ حکومت کے ظلم، بھاری ٹیکسوں، اور مذہبی امتیاز سے نالاں تھے۔جب مہاراجہ نے بھارت سے الحاق کی دستاویز پر دستخط کیے، تو گلگت کے لوگوں نے اسے اپنی آزادی پر حملہ سمجھا۔میجر براؤن نے بھی عوامی سطح پر اس نفرت کو محسوس کیا کہ اگر گلگت پر بھارت کا قبضہ ہوا تو علاقے کے مسلمان بغاوت کریں گے ۔
گلگت اسکاوٹس میں سب سپاہی مقامی مسلمان تھے۔وہ مہاراجہ کے مقرر کردہ کرنل عبدالمجید، ڈوگرہ افسر کی اطاعت کے لیے تیار نہیں تھے۔اگرمیجر براؤن مقامی مسلمان سپاہیوں کا ساتھ نہیں دیتے تو ممکن تھا کہ گلگت اسکاوٹس بھارت کی عملداری کے خلاف علمِ بغاوت بلند کردیتے اور یہاں خانہ جنگی ہو جاتی۔اس لیے میجربراؤن نے مقامی بغاوت کی مدد کرتے ہوئے ممکنہ خونریزی سے گلگت ایجنسی کو بچانے میں کامیاب ہوئے۔ اگرچہ برطانیہ نے باضابطہ طور پر غیر جانب داری اختیار کی تھی، مگر کئی برطانوی افسران نہیں چاہتے تھے کہ شمالی علاقہ بھارت کے ہاتھ میں جائے، کیونکہ وہاں سے روس کے خلاف برطانوی مفادات وابستہ تھے۔
براؤن نے انہی اسٹریٹیجک مفادات کے تحت فیصلہ کیا کہ گلگت بلتستان ، حکومتِ پاکستان سے الحاق کرے اور پاکستان میں قائداعظم محمدعلی جناح کی سحرانگیز قیادت پر گلگت بلتستان کے مسلمان متفق تھے ، یوں گلگت اسکاوٹس نے ۳۱ اکتوبر ۱۹۴۷ء کی رات کو ڈوگرہ راج کے خلاف بغاوت کر دی۔
یکم نومبر۱۹۴۷ء کو ڈوگرہ گورنر گھنسارا سنگھ کو گرفتار کر لیا گیا، جبکہ ۱۴ اگست ۱۹۴۸ء کو گلگت کی آزادی کے تقریباً ۹ماہ بعد بلتستان کو ڈوگرہ راج سے آزادی ملی۔ بزرگ کہنے لگے کہ آج کی بیٹھک میں اتنا کافی ہے اگلی نشست میں گلگت بلتستان میں ڈوگرہ راج کے خاتمے کے بعد جوسیاسی منظرنامہ وجود میں آیا اس کے حوالے سے گفتگو کریں گے، فی الحال مجھے کہیں ضروری کام سے جاناہےمیں نے بزرگ کا شکریہ ادا کیااور اگلی نشست کے لیے وقت دینے کے وعدہ کے ساتھ رخصت کیا۔
(ڈاکٹر انصار مدنی جامعہ قراقرم گلگت میں بحیثیت استاد خدمات سرانجام دے رہے ہیں ادارے کا مضمون نگار کے آرا سے متفق ہونا ضروری نہیں)


