جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے محمود خان اچکزئی سے ملاقات کے بعد گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ آئین کو کھلواڑ نہیں بننا چاہیے، ایک ہی سال میں دوسری ترمیم لانے کی کوشش کی جا رہی ہے، جس سے یہ تاثر ملتا ہے کہ وہی عمل دہرایا جا رہا ہے جو ماضی میں جنرل باجوہ کی نگرانی میں ہوا تھا۔
مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ جب دباؤ اور جبر کے تحت آئینی ترامیم کی جائیں گی تو عوام کا آئین پر سے اعتماد ختم ہو جائے گا۔
انہوں نے بتایا کہ ماضی میں ہم نے چھبیسویں آئینی ترمیم کے موقع پر 34 شقوں سے حکومت کو دستبردار ہونے پر مجبور کیا تھا، مگر اب پھر اسی نوعیت کی تیاری کی جا رہی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ہمیں ابھی تک مجوزہ 27ویں ترمیم کا مسودہ نہیں ملا، اور اپوزیشن جماعتیں اس پر مل کر متفقہ موقف اختیار کریں گی۔ انہوں نے کہا کہ ملک کے اندر ایک معتدل ماحول کو دانستہ طور پر شدت کی طرف دھکیلا جا رہا ہے۔
مولانا فضل الرحمان نے مزید کہا کہ ایک وزیر تین ماہ سے اس ترمیم پر کام کر رہا ہے، جس کا مطلب ہے کہ یہ مسودہ کسی اور جگہ سے تیار ہوا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اسحاق ڈار کل تک کہہ رہے تھے کہ ابھی چھبیسویں ترمیم ہضم نہیں ہوئی، اب نئی ترمیم لانے کی بات ہو رہی ہے۔
افغانستان کے حوالے سے بات کرتے ہوئے مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ آج افغانستان پر وہی الزام لگایا جا رہا ہے جو ماضی میں ایران پر لگایا جاتا تھا۔ ہمیں ایک پرامن اور مستحکم افغانستان چاہئے۔ اگر پاکستان میں دہشتگرد موجود ہیں تو یہ ہمارا اندرونی مسئلہ ہے۔ اگر افغان سرزمین پر حملے درست قرار دیے جائیں تو پھر کل بھارت بھی مریدکے اور بہاولپور پر حملوں کا جواز پیش کر سکتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ مسئلہ افغان حکومت سے ہے، مگر سزا مہاجرین کو دی جا رہی ہے۔ جنگ کے بعد مذاکرات کیے جا سکتے ہیں تو پہلے ہی بات چیت کیوں نہیں کی گئی؟
مولانا فضل الرحمان نے واضح کیا کہ ان کی نہ آرمی چیف، نہ وزیراعظم اور نہ ہی بیوروکریسی سے کوئی ذاتی لڑائی ہے۔ وہ ملک میں تلخی کم کرنا چاہتے ہیں۔
انہوں نے یہ بھی سوال اٹھایا کہ دینی مدارس سے متعلق پالیسی سابق جرنیلوں باجوہ اور فیض حمید کے دور جیسی ہی کیوں برقرار ہے۔ مسلم لیگ (ن) پر تنقید کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ علما کی توہین کی جا رہی ہے، اماموں کو 12 ہزار روپے دینے کا اعلان دراصل مساجد پر کنٹرول حاصل کرنے کی کوشش ہے، جبکہ خیبرپختونخوا میں بھی اماموں کو 10 ہزار روپے دینے کی پالیسی اسی مقصد کے لیے اپنائی گئی ہے۔


