خواتین کی صحت اور وقار سے متعلق ایک تاریخی مقدمے میں لاہور ہائیکورٹ راولپنڈی بینچ نے سینیٹری پیڈز پر عائد ٹیکس کو چیلنج کرنے والی رِٹ پٹیشن کو قابلِ سماعت قرار دیتے ہوئے وفاقی حکومت، ایف بی آر اور وزارتِ خزانہ سے جواب طلب کر لیا ہے۔
یہ رِٹ پٹیشن 25 سالہ وکیل اور خواتین کے حقوق کی کارکن ماہ نور عمر کی جانب سے دائر کی گئی، جنہوں نے اسے مفادِ عامہ کا معاملہ قرار دیتے ہوئے مؤقف اختیار کیا کہ “پیریڈ ٹیکس” دراصل خواتین کی حیاتیاتی ضرورت پر جرمانے کے مترادف ہے اور اس سے تعلیم و صحت کے بنیادی حقوق متاثر ہو رہے ہیں۔
درخواست میں کہا گیا ہے کہ پاکستان کی خواتین آبادی 117 ملین سے زائد ہے، جن میں سے تقریباً 62 ملین بلوغت کی عمر میں ہیں۔ تاہم، ان میں سے صرف 12 فیصد خواتین کمرشل سینیٹری پیڈز استعمال کر پاتی ہیں، جب کہ 88 فیصد غیر محفوظ متبادل جیسے کپڑا، راکھ یا اخبار استعمال کرنے پر مجبور ہیں، جو تولیدی اور پیشاب کی نالی کی بیماریوں کا باعث بنتے ہیں۔
یونیسیف کی 2023 کی رپورٹ کے مطابق، ہر پانچ میں سے ایک لڑکی مخصوص ایام میں اسکول چھوڑنے پر مجبور ہوتی ہے، اور پاکستان میں ’پیریڈ غربت‘ کا شکار خواتین کی تعداد 3 کروڑ سے تجاوز کر چکی ہے۔
درخواست گزار کے مطابق سینیٹری پیڈز پر مجموعی ٹیکس بوجھ 40 فیصد تک ہے، جس میں مقامی مصنوعات پر 18 فیصد سیلز ٹیکس، درآمد شدہ پیڈز پر 25 فیصد کسٹم ڈیوٹی اور 18 فیصد اضافی ٹیکس شامل ہیں۔ نتیجتاً دس پیڈز کا ایک پیکٹ 450 روپے تک جا پہنچتا ہے، جب کہ اوسط ماہانہ آمدنی 35 ہزار روپے سے زیادہ نہیں۔
کیس کی سماعت جسٹس ملک محمد اویس خالد اور جسٹس جواد حسن پر مشتمل دو رکنی بینچ نے کی۔ عدالت نے ایف بی آر کی کارکردگی پر سوال اٹھاتے ہوئے کہا کہ کمشنرز (اپیلز) کے کمزور فیصلے عدالتی بوجھ میں اضافہ کرتے ہیں۔
عدالت نے تمام فریقین کو دو ہفتوں میں پیراگراف وار جواب جمع کرانے کا حکم دیتے ہوئے اٹارنی جنرل آف پاکستان کو بھی نوٹس جاری کر دیا۔
یہ مقدمہ بین الاقوامی سطح پر بھی توجہ حاصل کر رہا ہے، کیونکہ برطانیہ، بھارت، نیپال، روانڈا، کولمبیا اور آسٹریلیا جیسے ممالک پہلے ہی خواتین کی مخصوص ایام کی مصنوعات پر ٹیکس ختم کر چکے ہیں۔


