طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد افغانستان میں آزادیِ صحافت دم توڑ چکی ہے، اور ملک بھر کے صحافی شدید خوف و ہراس کا شکار ہیں۔ طالبان رجیم کے دوران افغانستان میں صحافت زوال پذیر ہو گئی ہے اور آزادیِ اظہار کا گلا گھونٹا جا رہا ہے۔
آمو ٹی وی کی رپورٹ کے مطابق افغانستان میں سنسرشپ، گرفتاریوں اور دباؤ نے آزادیِ صحافت کو شدید نقصان پہنچایا ہے۔
پریس فریڈم انڈیکس میں افغانستان کی درجہ بندی مزید خراب ہو چکی ہے اور میڈیا پر پابندیاں سخت ترین سطح تک پہنچ گئی ہیں۔ افغانستان میڈیا سپورٹ آرگنائزیشن کے مطابق 2021 کے بعد سے اب تک صحافیوں پر تشدد کے 539 واقعات ریکارڈ کیے جا چکے ہیں جن میں مارپیٹ، گرفتاریوں اور زبردستی نشر کی گئی اعترافی ویڈیوز شامل ہیں۔ تنظیم کا کہنا ہے کہ متعدد صحافی بے بنیاد الزامات کے تحت اب بھی طالبان کی قید میں ہیں۔
بین الاقوامی ایڈووکیسی گروپ رپورٹرز وِدآؤٹ بارڈرز نے اپنی تازہ رپورٹ میں افغانستان میں آزادیِ صحافت کی بگڑتی ہوئی صورتحال پر شدید تشویش ظاہر کی ہے۔
رپورٹ کے مطابق 2024 میں افغانستان 180 ممالک میں سے 178ویں نمبر پر آ گیا ہے، جب کہ صرف ایک سال میں 12 میڈیا ادارے بند کر دیے گئے اور خواتین صحافیوں کی 80 فیصد نوکریاں ختم کر دی گئیں۔
اقوامِ متحدہ کے معاون مشن برائے افغانستان (UNAMA) کے مطابق طالبان حکومت نے ٹی وی پر کسی بھی جاندار کی تصویر دکھانے پر پابندی عائد کر دی ہے، جس سے صحافت مزید متاثر ہوئی ہے۔
اقوامِ متحدہ کے سیکریٹری جنرل نے بھی صحافیوں کے خلاف جرائم کے خاتمے کے عالمی دن پر انتباہ جاری کرتے ہوئے افغانستان میں تشویشناک حالات پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔
افغانستان میں اب ایسا خوف کا ماحول قائم ہے جہاں سچ بولنا جرم بن چکا ہے اور خاموشی مجبوری۔ عالمی برادری سے مطالبہ کیا جا رہا ہے کہ وہ افغانستان میں آزادیِ اظہار اور صحافت کے تحفظ کے لیے ہنگامی بنیادوں پر اقدامات کرے۔


