آج لائن آف کنٹرول کے دونوں اطراف کشمیری عوام یومِ شہدائے جموں عقیدت و احترام سے منارہے ہیں۔ یہ دن 6 نومبر 1947 کے ان مظلوم کشمیری مسلمانوں کی یاد میں منایا جاتا ہے جنہیں ڈوگرہ فوج نے ظلم و بربریت کا نشانہ بنایا۔
اُس وقت جموں، کٹھوا، ادہم پور اور ریاسی کے اضلاع میں ڈوگرہ فوج نے بےرحمی سے مسلمانوں کی نسل کشی کی، جب بڑی تعداد میں کشمیری مسلمان پاکستان کی طرف ہجرت کرنے کے لیے جمع ہو رہے تھے۔
قتلِ عام سے قبل ڈوگرہ حکومت نے اپنی فوج کے مسلمان سپاہیوں کو برطرف کر کے ان کی جگہ ہندو افسران تعینات کیے۔ جموں کینٹ کا کمانڈر بھی ایک ہندو افسر کو بنا دیا گیا۔
اس ظلم میں ڈوگرہ فوج کے ساتھ راشٹریہ سیوک سنگھ (آر ایس ایس) کے انتہاپسند کارکن بھی شریک تھے۔ 6 نومبر 1947 کو 60 سے زائد بسوں میں کشمیری مسلمانوں کا ایک قافلہ سیالکوٹ کی طرف روانہ ہوا لیکن سامبہ کے مقام پر آر ایس ایس اور ڈوگرہ فوج نے گھات لگا کر ان پر حملہ کر دیا۔
اس خونی کارروائی میں 123 گاؤں جلا دیے گئے اور دو ہفتوں تک جاری رہنے والے اس قتلِ عام میں 2 لاکھ 37 ہزار سے زائد کشمیری مسلمان شہید کر دیے گئے۔
یہ المناک سانحہ انسانی تاریخ کے سیاہ ترین ابواب میں شمار ہوتا ہے۔ عالمی طاقتوں کے لیے یہ لمحہ فکریہ ہے کہ 78 سال گزر جانے کے باوجود کشمیری مسلمان آج بھی اپنے حقِ خود ارادیت کے حصول سے محروم ہیں۔


