قومی اسمبلی کا اجلاس آج دوبارہ منعقد ہوگابھی جاری ہے، جس میں 27ویں آئینی ترمیم کی شق وار منظوری دی جارہی ہے۔
یہ بل گزشتہ روز ایوانِ زیریں میں پیش کیا گیا تھا۔ ترمیم کی منظوری کے لیے 224 ووٹ درکار ہیں جبکہ حکومت کو 237 ارکان کی حمایت حاصل ہے۔
سابق وزیراعظم اور مسلم لیگ (ن) کے قائد نواز شریف بھی اجلاس میں شریک ہوں گے اور بل کے حق میں ووٹ کاسٹ کریں گے۔
ذرائع کے مطابق حکومت چاہتی ہے کہ صدر مملکت کے دستخط کے بعد وفاقی آئینی عدالت کے قیام کے لیے عملی اقدامات فوری طور پر شروع کیے جائیں، اور امکان ہے کہ بل منظور ہونے کی صورت میں جمعرات کے روز عدالت کے ججز سے حلف لیا جائے گا۔
27ویں آئینی ترمیم کے تحت صدر مملکت وزیراعظم کی ایڈوائس پر وفاقی آئینی عدالت کے جج مقرر کریں گے، جبکہ یہ بل سینیٹ سے پہلے ہی منظور ہو چکا ہے۔
دوسری جانب اپوزیشن نے بھی اپنی آئینی ترامیم قومی اسمبلی سیکرٹریٹ میں جمع کرا دی ہیں، جنہیں الگ فہرست کی صورت میں پیش کیا جائے گا
تاہم حکومت نے اپوزیشن کی ترامیم کو دو تہائی اکثریت سے مسترد کرنے کا فیصلہ کیا ہے اور اسے یقین ہے کہ 27ویں ترمیم آسانی سے منظور ہو جائے گی۔
گزشتہ روز اسمبلی کا اجلاس شور شرابے کی نذر ہو گیا تھا، تاہم وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ ازخود نوٹس کا اختیار ماضی میں غیر متوازن رہا ہے، اور نئی ترمیم سے عدالتی اختیارات کی واضح حد بندی کے باعث انصاف کا عمل شفاف ہوگا۔
وزیر دفاع خواجہ آصف نے وضاحت کی ہے کہ یہ ترمیم کسی سیاسی جماعت کے خلاف نہیں بلکہ نظامِ انصاف کو درست سمت میں لانے کے لیے کی جا رہی ہے۔
اس کے برعکس تحریک انصاف کے چیئرمین بیرسٹر گوہر علی نے مؤقف اپنایا کہ ترمیم جمہوریت کے بنیادی ڈھانچے کے خلاف ہے، جبکہ جے یو آئی (ف) کی شاہدہ اختر علی نے کہا کہ اس ترمیم کے کئی نکات عوامی مشاورت کے بغیر شامل کیے گئے ہیں۔


