پاکستان میں چائلڈ لیبر،جن ہاتھوں میں قلم ہونا چاہئے ان میں اوزارایک لمحہ فکریہ

Date:

تحریر عارف کاظمی (20 نومبر بچوں کے عالمی دن کی مناسبت سے اہم تحریر)

بچوں کا عالمی دن ہر سال اس عزم کی تجدید کے ساتھ منایا جاتا ہے کہ دنیا بھر کے بچوں کو وہ حقوق فراہم کیے جائیں جو ان کا بنیادی انسانی حق ہیں،تعلیم، تحفظ، صحت، محبت اور ایک محفوظ مستقبل۔ لیکن پاکستان میں لاکھوں بچوں کے لیے یہ دن کسی جشن سے زیادہ ایک تلخ یاد دہانی ہے کہ وہ اب تک اپنے بنیادی حقوق سے محروم ہیں۔ چائلڈ لیبر ملک میں ایک سنگین حقیقت کے طور پر موجود ہے، جہاں معصوم ہاتھ کتابوں کے بجائے اوزار تھامنے پر مجبور ہیں، اور ننھے قدم کھیل کے میدانوں کے بجائے کارخانوں، ورکشاپوں اور سڑکوں پر بھٹکتے ہیں۔

پاکستان میں چائلڈ لیبر کی صورتحال نہایت تشویشناک ہے۔ مختلف رپورٹس کے مطابق یہ شرح تقریباً 16.9% سے 33% تک ہے۔ غربت اس کی بنیادی وجہ ہے اور ماہرین نے قانون سازی اور سماجی تحفظ پر زور دیا ہے تاکہ اس مسئلے پر قابو پایا جا سکے۔

 شہروں کے چوراہوں، ہوٹلوں، گاڑیوں کی ورکشاپوں، اینٹوں کے بھٹوں، قالین بافی کے مراکز اور گھریلو ملازمتوں میں ہزاروں بچے دکھائی دیتے ہیں جن کی عمریں کھیلنے، سیکھنے اور بڑھنے کی ہوتی ہیں۔ دیہی علاقوں میں تو یہ مسئلہ اور بھی سنگین ہے، جہاں معاشی کمزوری کے باعث بچے کم عمری میں ہی کھیتوں میں مزدوری شروع کر دیتے ہیں۔ کچھ بچے ایسے بھی ہیں جو گداگری، جبری مشقت اور استحصال کا شکار ہوتے ہیں۔ یہ منظرنامہ ایک ایسے ملک کی تصویر پیش کرتا ہے جہاں بچپن کو بوجھ سمجھ لیا گیا ہے اور غربت کے ہاتھوں والدین اپنے بچوں کو مزدوری پر بھیجنے کے سوا کوئی راستہ نہیں پاتے۔

چائلڈ لیبر کی سب سے بڑی وجہ غربت ہے۔ جب چولہا جلانے کے لیے کمائی کم پڑ جائے تو گھر کے معصوم بچے بھی آمدنی کا ذریعہ بن جاتے ہیں۔ والدین سمجھتے ہیں کہ تعلیم بعد میں حاصل کر لی جائے گی، لیکن بھوک اور حالات فوری تقاضا کرتے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ پاکستان میں معیاری تعلیم کی عدم دستیابی، اسکولوں کی کمی، مہنگی نجی تعلیم اور دور دراز علاقوں میں سہولیات کا فقدان بھی بچوں کو تعلیم سے دور رکھتا ہے۔ یوں تعلیم ایک خواب بن جاتی ہے اور مزدوری ایک تلخ حقیقت۔

قانونی طور پر چائلڈ لیبر ایک جرم ہے، مگرہمارے ملک میں اس حوالے قوانین پر عملدرآمد نہ ہونے کے برابر ہے۔ لیبر انسپیکشن سسٹم کمزور ہے، کارخانوں میں چھاپے نہیں پڑتے، جرمانے نہ ہونے کے برابر ہیں اور اکثر ذمہ داران اثرورسوخ کے باعث بچ نکلتے ہیں۔ اسی وجہ سے چائلڈ لیبر کا سلسلہ نسل در نسل چلتا رہتا ہے۔ اس کے علاوہ معاشرتی رویے بھی اس مسئلے کو بڑھا رہے ہیں۔ بہت سے لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ بچہ اگر جلد کام سیکھ لے گا تو مستقبل میں کام آئے گا، یوں بچپن کی معصومیت محنت کے بوجھ تلے دب جاتی ہے۔

چائلڈ لیبر کے اثرات زندگی بھر بچوں کا پیچھا کرتے ہیں۔ مزدوری کے باعث بچے تعلیم سے محروم رہ کر ہمیشہ غربت کے دائرے میں پھنسے رہتے ہیں۔ بھاری کام ان کی جسمانی صحت کو نقصان پہنچاتا ہے، چوٹیں، بیماری اور دائمی درد ان کا مقدر بن جاتے ہیں۔ ذہنی اور نفسیاتی طور پر یہ بچے ڈر، عدم تحفظ، استحصال اور تھکن کا شکار ہو جاتے ہیں، جبکہ بچپن کی رنگینیاں اور خوشیاں ان کی زندگی سے مٹ جاتی ہیں۔ یہ نہ تو پوری طرح بچپن جیتے ہیں اور نہ جوانی میں وہ اعتماد حاصل کر پاتے ہیں جو ایک بہتر مستقبل کی بنیاد ہوتا ہے۔

میرا خیال ہے کہ پاکستان میں چائلڈ لیبر ایک ایسا مسئلہ ہے جسے صرف قانون یا ایک ادارہ حل نہیں کر سکتا۔ یہ ریاست، معاشرے، والدین، اداروں اور میڈیا سب کی مشترکہ ذمہ داری ہے کہ بچوں کو مزدوری سے نکال کر اسکولوں کی طرف لایا جائے۔ اس کے لیے سب سے پہلے تعلیم کو بچوں کے لیے واقعی قابلِ رسائی اور فائدہ مند بنانا ہوگا۔ اسکولوں میں سہولیات، اساتذہ، کتابیں، یونیفارم اور کھانا فراہم کیا جائے تاکہ والدین بچوں کو تعلیم کے لیے بھیجنے میں ہچکچاہٹ محسوس نہ کریں۔ اس کے ساتھ ساتھ غریب گھرانوں کے لیے سماجی تحفظ کے پروگرام مضبوط کرنے کی ضرورت ہے تاکہ والدین اپنے بچوں کو مزدوری پر مجبور نہ ہوں۔

چائلڈ لیبر کے خاتمے کے لیے ضروری ہے کہ قوانین پر سختی سے عمل کیا جائے، لیبر انسپیکشن سسٹم فعال ہو، اور بچوں کے استحصال میں ملوث افراد کے خلاف سخت کارروائی کی جائے۔ معاشرے میں آگاہی پیدا کی جائے کہ بچوں کو مزدوری کروانا جرم ہی نہیں، انسانیت کے خلاف ظلم بھی ہے۔ والدین کو یہ باور کرانا بھی ضروری ہے کہ ان کے بچوں کا مستقبل تعلیم، تربیت اور محفوظ ماحول میں ہے، مزدوری میں نہیں۔

آخر میں ضروری ہے کہ اس مسئلے کے حل کے لیے قومی سطح پر ایک جامع حکمتِ عملی اپنائی جائے جس میں تعلیم کا فروغ، غربت کا خاتمہ، بچوں کے تحفظ کے مراکز کا قیام، سماجی شعور بیداری اور قانون کے موثر نفاذ شامل ہوں۔ جب تک ہم اجتماعی طور پر یہ فیصلہ نہیں کرتے کہ ہر بچے کا بچپن قابلِ احترام ہے، تب تک پاکستان ترقی کی حقیقی منزل تک نہیں پہنچ سکتا۔ بچوں کا عالمی دن ہمیں یہی یاد دلانے آتا ہے کہ قوموں کا مستقبل ان کے بچوں کے ہاتھوں میں ہوتا ہے، اور یہ ہماری ذمہ داری ہے کہ ان ہاتھوں کو کتاب، قلم اور امید تھمائی جائےنہ کہ مشقت، درد اور مایوسی۔

(مضمون نگارپی ایچ ڈی اسکالر،سینئر صحافی اور سچ ٹی وی کے ساتھ بطور کنٹرولر نیوز منسلک ہیں ، ادارے کا مضمون نگار کےخیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں)

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here

Share post:

Subscribe

spot_imgspot_img

Popular

More like this
Related

اسلام آباد جوڈیشل کمپلیکس پر حملے کے کیس میں اہم پیشرفت،مزید4دہشت گرد گرفتار

اسلام آباد جوڈیشل کمپلیکس پر حملے کے کیس میں...

بھارت کے شہر بنگلور میں امریکی سپر سونک بمبار B‑1B Lancer کی آمد

بھارت کے شہر بنگلور کے کیمپیگوڈا انٹرنیشنل ایئرپورٹ پر امریکی فضائیہ...

تاجکستان کے وزیر دفاع کی آرمی چیف، فیلڈ مارشل سید آصم منیر سےجی ایچ کیو میں ملاقات

تاجکستان کے وزیر دفاع کرنل جنرل صبیر زودہ امام...

آرمی ایکٹ ترمیمی بل منظوری کے لیےآج سینیٹ میں پیش کیا جائےگا

وزیرِ دفاع خواجہ آصف آج سینیٹ کے اجلاس میں...