بنگلہ دیش میں عوامی انصاف کی فتح کے بعد ملک کی سیاسی فضا میں بڑی تبدیلی سامنے آئی ہے۔ بھارتی سرپرستی میں قائم علاقائی تسلط کے منصوبے کو شدید جھٹکا لگا ہے جبکہ بھارتی حمایت یافتہ سابق وزیراعظم شیخ حسینہ واجد ملک چھوڑ کر اپنے ہینڈلرز کے پاس پناہ لینے پر مجبور ہو گئی ہیں۔
ان پر انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں، کرپشن اور ریاستی طاقت کے ناجائز استعمال کے الزامات مسلسل بڑھتے رہے، جن کی بنیاد پر بنگلہ دیش کی عدالت نے انہیں انسانیت کے خلاف جرائم کا مرتکب قرار دیا ہے۔
عدالت نے ایک اور مقدمے میں شیخ حسینہ کو تاحیات قید کی سزا بھی سنا دی، جب کہ انٹرنیشنل کرائم ٹریبونل کے تین رکنی بینچ نے سابق وزیرداخلہ اسد الزماں کمال اور سابق آئی جی چودھری عبداللہ المامون کو بھی مجرم قرار دیا ہے۔
عدالتی فیصلوں میں کہا گیا ہے کہ شیخ حسینہ نے مظاہرین پر مہلک ہتھیار استعمال کرائے، طلبا کے جائز مطالبات سننے کے بجائے فسادات کو ہوا دی اور تحریک کو طاقت کے ذریعے دبانے کے لیے توہین آمیز اقدامات کیے۔
عالمی جریدے الجزیرہ کے مطابق اقوام متحدہ نے بتایا ہے کہ 2024 کی تحریک کے دوران تقریباً 1,400 افراد جان سے گئے تھے۔ ان سنگین واقعات کے بعد بنگلہ دیش نے بھارت سے شیخ حسینہ واجد سمیت اعلیٰ سطح کے مجرموں کی حوالگی کا مطالبہ کیا ہے اور وزارت خارجہ نے بیان دیا ہے کہ مجرمان کو پناہ دینا انصاف کی بے توقیری کے مترادف ہے۔
بھارتی ماہرین کا کہنا ہے کہ نئی دہلی کسی صورت شیخ حسینہ کو واپس نہیں کرے گا، جبکہ بنگلہ دیش مسلسل ان کی حوالگی کا مطالبہ کرتا رہا ہے۔
اب سوال یہ ہے کہ کیا بھارت سزائے موت کی مجرم شیخ حسینہ واجد کو بنگلہ دیش کے حوالے کرے گا یا نہیں۔ مودی حکومت کی جانب سے ان کو پناہ دینا خطے میں آمریت کی حمایت کے مترادف قرار دیا جا رہا ہے۔


