امریکی نیوز نیٹ ورک این بی سی کی ایک حالیہ رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ ایران ماہانہ تقریباً تین ہزار راکٹ تیار کر رہا ہے۔
رپورٹ میں سیٹلائٹ تصاویر اور اسرائیلی سیکیورٹی اہلکاروں کے لیکس کا حوالہ دیا گیا ہے۔ ماہرین کے مطابق اگر اس تخمینہ کا صرف ایک چوتھائی بھی درست ہو، تو یہ اسرائیل کے لیے ایک سنگین اسٹریٹجک چیلنج کی علامت ہے۔
تاریخی موازنہ ظاہر کرتا ہے کہ دوسری جنگ عظیم کے دوران جرمنی نے 18 ماہ کے دوران تقریباً 36 ہزار V-1 اور V-2 راکٹ تیار کیے، یعنی جنگ کے عروج پر ماہانہ دو ہزار راکٹ، جبکہ اس وقت ٹیکنالوجی نسبتاً primitive اور مہنگی تھی۔
آج ایران جدید صنعتی نظام، خودکار پیداواری لائنز اور کئی دہائیوں کے تجربے سے کام کر رہا ہے، جس سے ماہانہ تین ہزار راکٹ کی پیداوار ممکن نظر آتی ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ ہر تیار راکٹ اسرائیل تک پہنچنے کی صلاحیت نہیں رکھتا۔ طویل فاصلے کے بیلسٹک راکٹ جدید انجن، درست رہنمائی اور دفاعی نظام سے بچنے کی صلاحیت کے حامل ہوتے ہیں، اس لیے ان کی پیداوار سست اور پیچیدہ ہے۔ زیادہ تر راکٹ قلیل یا درمیانے فاصلے کے ہیں جو امریکی فوجی تنصیبات یا خطے میں طاقت کے توازن کے لیے استعمال ہوتے ہیں۔
ماہرین کے مطابق حالیہ جنگ کے تجربے نے ثابت کیا ہے کہ میزائل ایران کی حفاظت اور خطے میں طاقت کے توازن کے لیے سب سے مؤثر ہتھیار ہیں، اور جتنے زیادہ راکٹ ہوں گے، اسرائیل کے لیے کسی بھی ممکنہ محاذ آرائی کی لاگت اتنی ہی زیادہ ہو جائے گی۔


