امریکا اور بھارت کا خفیہ جوہری کھیل جنوبی ایشیائی خطے کیلئے کتنا خطرناک؟

Date:

تحریر، عارف کاظمی
ہمالیہ کے برف پوش پہاڑوں میں چھپے ایک خفیہ نیوکلیئر آلے کی موجودگی ایک ایسے خطرے کی نشاندہی کرتی ہے جس کے نتائج پوری دنیا خصوصاً جنوبی ایشیا کے کروڑوں انسانوں کے لیے تباہ کن ثابت ہو سکتے ہیں۔

دی نیویارک ٹائمز کی حالیہ تحقیق کے مطابق 1965ء میں امریکا اور بھارت کے مشترکہ خفیہ آپریشن کے دوران ہمالیہ کے علاقے نندا دیوی کے گلیشیئرز میں ایک نیوکلیئر جنریٹر نصب کیا گیا تھا، جسے چین کے میزائل پروگرام کی نگرانی کے لیے استعمال کیا جانا تھا۔ تاہم اچانک آنے والے برفانی طوفان کے باعث یہ مشن ادھورا رہ گیا اور جنریٹر برف میں کہیں گم ہو گیا۔

اس آلے کو SNAP-19C کہا جاتا ہے، جس میں ریڈیو ایکٹو پلوٹینیم-238 اور پلوٹینیم-239 شامل تھے۔ یہ وہ تابکار مادے ہیں جو انسانی جسم میں داخل ہونے کی صورت میں شدید کینسر، اعضا کی ناکامی اور موت تک کا سبب بن سکتے ہیں۔

اس واقعے کے بعد کئی دہائیاں گزر چکیں، لیکن یہ نیوکلیئر آلہ آج بھی گلیشیئرز میں کہیں موجود ہے، جو گنگا اور جمنا جیسےبرصغیر کے بڑے دریاوں کو پانی فراہم کرتے ہیں۔

ان دریاؤں پر بھارت اور چین کے کروڑوں شہریوں کی زندگی اور زراعت کا انحصار ہے۔ اگر نیوکلیئر آلہ گلیشیئر کے پگھلنے کے باعث پانی کے دھارے میں شامل ہو گیا تو تابکاری پھیل کر نا صرف مقامی آبادی، بلکہ پورے خطے کے لیے زہر قاتل بن سکتی ہے۔

ماہرین خبردار کر رہے ہیں کہ پلوٹینیم کی انتہائی خطرناک نوعیت کے باعث یہ جنریٹر کسی دہشت گرد گروہ یا مجرمانہ تنظیم کے ہاتھ لگنے پر ’’ڈرٹی بم‘‘ کی شکل میں بھی استعمال ہو سکتا ہے، جو عالمی سکیورٹی کے لیے سنگین خطرہ ہے۔

اس کے ساتھ ساتھ مسلسل بڑھتی ہوئی ماحولیاتی تبدیلی اور گلیشیئر پگھلنے کی رفتار میں اضافہ اس مسئلے کو مزید پیچیدہ بنا رہا ہے۔ گلیشیئرز کا پانی دریاؤں میں شامل ہوتا ہے اور اگر تابکار ذرات گھل گئے تو یہ آلودگی پوری آبادی کو متاثر کر سکتی ہے۔

سی آئی اے کے سابق اہلکاروں اور اس مشن میں شامل کوہ پیماؤں کے مطابق گنگا کے کناروں پر بسنے والے لاکھوں انسانوں کی زندگی اس خطرے سے جڑی ہوئی ہے۔

بعض ماہرین کا خیال ہے کہ دریاؤں کے وسیع بہاؤ سے تابکاری کے اثرات کم ہو سکتے ہیں، مگر حقیقت یہ ہے کہ اگر پلوٹینیم پانی میں شامل ہو جائے تو آلودگی کی شدت کم ہونے کے باوجود انسانی صحت اور ماحول پر اس کے دیرپا اور مہلک اثرات سے انکار ممکن نہیں۔

دستاویزات سے معلوم ہوا ہے کہ نیوکلیئر مشن انتہائی خفیہ سطح پر ترتیب دیا گیا تھا اور اس کے لیے جھوٹے سائنسی لائسنس اور امریکی و بھارتی انٹیلی جنس اداروں کی منظوری شامل تھی۔

لیکن وقت گزرنے کے ساتھ یہ سوال شدت اختیار کر گیا ہے کہ عالمی سکیورٹی کے نام پر کیے جانے والے ایسے خفیہ اقدامات عوام اور ماحول کے لیے کس قدر خطرناک ثابت ہوتے ہیں۔ آج جب دنیا ماحولیاتی تبدیلی اور جوہری مواد کے سکیورٹی خدشات سے دوچار ہے، ایسے ذرائع کا وجود عالمی امن کے لیے ایک بڑا چیلنج بن چکا ہے۔

جنریٹر کی موجودگی اور اس سے وابستہ خطرات نہ صرف بھارت اور چین، بلکہ پورے جنوبی ایشیا کے لیے تشویش اور فوری بین الاقوامی توجہ کا تقاضا کرتے ہیں۔ اگر اس مسئلے کو نظر انداز کیا گیا تو مستقبل میں کسی بڑے انسانی یا ماحولیاتی المیے کو روکنا ممکن نہیں رہے گا۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here

Share post:

Subscribe

spot_imgspot_img

Popular

More like this
Related

سڈنی حملہ،ملزمان نے حملے سے پہلے کہاں ٹریننگ لی، بڑی خبر

آسٹریلیا کے شہر سڈنی کے علاقے بونڈئی بیچ پر...

پاکستان اور لیبیا کے مابین4.6 ارب ڈالر کے ہتھیار فروخت کرنے کا معاہدہ

پاکستان نے لیبیا کی مشرقی فورس لیبین نیشنل آرمی...

پاکستان انڈر 19 کرکٹ ٹیم کی فیلڈ مارشل سید عاصم منیر سے جی ایچ کیو میں ملاقات

چیف آف ڈیفنس فورسز فیلڈ مارشل سید عاصم منیر...