افغانستان اور تاجکستان کے مابین بھی سرحدی دراندازیوں کے بعد حالات کشیدہ ہیں،تاجک سرکاری خبر رساں ادارے خووار نے تاجک ریاستی کمیٹی برائے قومی سلامتی کے بارڈر ٹروپس کے بیان کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا کہ منگل کی رات تین افراد نے ملک کے جنوب مغربی خطے ختلون کے ضلع شمسی الدین شوہین میں سرحد عبور کی
بارڈر فورسز نے سرچ آپریشن کے بعد بدھ کے روز تینوں افراد کو تلاش کر لیا گیا۔تاہم مذکورہ افراد نے تاجک سرحدی اہلکاروں کے سامنے ہتھیار ڈالنے سے انکار کیا اور مسلح مزاحمت کی۔
حکام کے مطابق ان کا ارادہ قومی سلامتی کمیٹی کے بارڈر ٹروپس کی ایک چوکی پر حملہ کرنے کا تھا۔بیان میں کہا گیا کہ کارروائی کے نتیجے میں تینوں افراد کو ہلاک کر دیا گیا، تاہم جھڑپ کے دوران دو تاجک سرحدی اہلکار بھی جان سے گئے۔
تاجک حکام کے مطابق گزشتہ ایک ماہ کے دوران افغانستان سے یہ تیسرا مسلح حملہ، دہشت گرد کارروائی اور غیرقانونی سرحدی دراندازی کا واقعہ ہے۔
بیان میں افغان حکومت پر الزام عائد کیا گیا کہ وہ تاجک۔افغان سرحد پر سلامتی اور استحکام یقینی بنانے سے متعلق اپنی بین الاقوامی ذمہ داریوں اور وعدوں پر بارہا عمل کرنے میں ناکام رہی ہے۔
تاجک بیان میں یہ امید بھی ظاہر کی گئی کہ افغان انتظامیہ تاجک عوام سے معذرت کرے گی اور سرحدی سلامتی کو یقینی بنانے کے لیے مزید مؤثر اقدامات کرے گی۔
افغانستان کی جانب سے اس پیش رفت پر فوری طور پر کوئی ردعمل سامنے نہیں آیا۔
اس سے قبل رواں ماہ تاجکستان نے کہا تھا کہ افغانستان سے ہونے والے دو سرحد پار حملوں میں پانچ افراد ہلاک اور پانچ زخمی ہوئے تھے۔
بدھ کے روز تاجک صدر امام علی رحمان نے تاجک۔افغان سرحد کے قریب ہرب میدان تربیتی مرکز میں چار نئی سرحدی چوکیاں اور ٹینکوں کی تربیت کے لیے ایک نیا رینج افتتاح کیا، جس کا مقصد سرحدی سلامتی کو مزید مضبوط بنانا ہے۔


