دخترِ مشرق، پاکستان کی سابق وزیراعظم اور پیپلز پارٹی کی قائد، بے نظیر بھٹو کی 18ویں برسی پر ملک بھر سے پیپلز پارٹی کے کارکنان اور جیالے بڑی تعداد میں ان کے آبائی شہر گڑھی خدا بخش پہنچ رہے ہیں، جہاں مختلف مقامات پر استقبالیہ کیمپز قائم کیے گئے ہیں تاکہ عوام ان کی یاد میں شرکت کر سکیں اور شہید رہنما کو خراج عقیدت پیش کر سکیں۔
خاتون اول آصفہ بھٹو نے فریال تالپور کے ہمراہ بے نظیر بھٹو کے مزار پر حاضری دی اور پھول چڑھائے، اسی طرح ذوالفقار علی بھٹو، مرتضیٰ بھٹو اور شاہ نواز بھٹو کی قبروں پر بھی پھول رکھے گئے تاکہ بھٹو خاندان کے شہداء کو یاد کیا جا سکے اور عوامی سطح پر ان کی قربانیوں کو خراج عقیدت پیش کیا جا سکے۔
پیپلز پارٹی کے جنرل سیکرٹری سندھ سینیٹر وقار مہدی سمیت دیگر رہنماؤں اور جیالوں نے بھی بھٹو خاندان کی دیگر شخصیات کی قبروں پر حاضری دی، اور اس موقع پر پارٹی کے کارکنان نے مختلف تقریبات اور جلسوں کے ذریعے بے نظیر بھٹو کی سیاسی خدمات اور جمہوری جدوجہد کو یاد کیا۔
حکومت سندھ نے بھی سابق وزیراعظم شہید محترمہ بینظیر بھٹو کی برسی کے موقع پر عام تعطیل کا اعلان کیا تاکہ عوام بلا روک ٹوک تقریب میں شرکت کر سکیں، جبکہ وزیراعظم آزاد کشمیر فیصل ممتاز راٹھور نے بھی آزاد کشمیر میں اسی دن عام تعطیل کا اعلان کر کے بینظیر بھٹو کی خدمات کو خراج تحسین پیش کیا۔
بینظیر بھٹو کی سوانح حیات میں دیکھا جائے تو وہ 21 جون 1953 کو کراچی میں پیدا ہوئیں، ان کے والد کو پھانسی دی گئی، دو بھائی قتل ہوئے، اور انہوں نے ملک میں بدترین آمریتوں اور جلاوطنی کا سامنا کیا، تاہم وہ جمہوری جدوجہد سے کبھی پیچھے نہیں ہٹیں اور اپنے والد ذوالفقار علی بھٹو کی سیاسی سوچ اور وژن کو آگے بڑھانے میں نمایاں کردار ادا کیا۔
تعلیمی اعتبار سے بینظیر بھٹو نے کونوینٹ آف جیز اینڈ میری کراچی گرامر اسکول سے ابتدائی تعلیم حاصل کی، جبکہ ہارورڈ اور آکسفورڈ یونیورسٹیوں سے پولیٹیکل سائنس اور بین الاقوامی قوانین میں اعلیٰ تعلیم حاصل کی، جس نے انہیں عالمی سطح پر تسلیم شدہ سیاسی رہنما بنایا۔
پیپلز پارٹی کے بانی ذوالفقار علی بھٹو نے اپنے دونوں بیٹوں کی بجائے بینظیر بھٹو کو اپنا سیاسی جانشین قرار دیا، اور وقت نے اس فیصلے کی درستگی کو ثابت کیا، کیونکہ ضیاء الحق کی آمریت کے دوران وہ بیرون ملک رہ کر جمہوریت کی بحالی کے لیے سرگرم رہیں اور اپریل 1986 میں پاکستان واپس آ کر عوامی سطح پر بے مثال استقبال حاصل کیا۔
1988 کے انتخابات میں پیپلز پارٹی کی کامیابی کے بعد وہ مسلم دنیا کی پہلی خاتون وزیراعظم منتخب ہوئیں، تاہم 18 ماہ بعد ان کی حکومت ختم کر دی گئی، نومبر 1993 میں وہ دوسری بار وزیراعظم منتخب ہوئیں لیکن 1996 میں پیپلز پارٹی کے نامزد صدر نے حکومت کا خاتمہ کر دیا، جس کے بعد بینظیر بھٹو نے جلاوطنی اختیار کی، تاہم 2007 میں پاکستان واپسی کا اعلان کیا اور جان کے خطرے کے باوجود 18 اکتوبر 2007 کو کراچی پہنچیں، جہاں ان کے استقبال کے دوران بم دھماکے ہوئے جن میں سیکڑوں افراد جاں بحق اور زخمی ہوئے۔
بینظیر بھٹو نے ملک کے مختلف شہروں میں جلسے کر کے عوام کو اپنی سیاسی جدوجہد کا آئینہ دکھایا، بار بار خطرات کے باوجود عوام سے دور نہ رہیں، اور 27 دسمبر 2007 کو راولپنڈی کے لِیاقت باغ میں جلسے سے واپسی پر ان پر جان لیوا حملہ ہوا جس میں وہ المناک طور پر دنیا سے رخصت ہو گئیں، اور بعد ازاں انہیں لاڑکانہ کے گڑھی خدا بخش میں والد ذوالفقار علی بھٹو اور بھائیوں مرتضیٰ بھٹو اور شاہ نواز بھٹو کے پہلو میں سپرد خاک کیا گیا تاکہ ان کی یاد ہمیشہ زندہ رہے اور عوام کو ان کی قربانیوں سے روشناس کرایا جا سکے۔


