اللہ تعالیٰ کی حمدوثنا یعنی تعریف کرنے کا مطلب؟
تحریر: انصار مدنی
اس حوالے سے اگر ہم اظہارِ جرات کریں تو کہیں ناگوار طبیعت نہ گزرے۔ ہم یہاں لفظِ "تعریف” سے مراد وہ تعریف نہیں لے رہے ہیں جو ہمارے ہاں رائج ہے یعنی چاپلوسی، اکثر صاحب کردار لوگ اسے ناپسند کرتے ہیں جبکہ بڑے بڑے اداروں کے اہم عہدوں پر کبھی کبھار چھوٹے چھوٹے لوگ آتے ہیں اور وہ اپنے آپ کو تسلی دینے کے لیے چاپلوس لوگوں کے محتاج رہتے ہیں جس کی وجہ سے ہمارے ہاں چاپلوس لوگوں کی تعداد میں دن بدن اضافہ ہو رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اب ہمارے ہاں علمی اصطلاحات بھی چاپلوسی سماجی رویوں کے تناظر میں دیکھنے رہے ہیں۔ مثلاً اگر کوئی شخص ہمیں ذلیل آدمی، ذلیل عورت کہے تو ہم اس کی جان کے دشمن ہو جاتے ہیں جبکہ ذلیل اور عزیز کے الفاظ میں پوشیدہ حکمت کو ہم اپنے چاپلوسی سماجی رویوں کی وجہ سے سمجھنے سے قاصر ہیں۔جبکہ علمی اصطلاحات میں بنجر زمین کو عزیز اور زرخیز زمین کو ذلیل۔ بانجھ عورت کو عزیز اور صاحبِ اولاد عورت کو ذلیل کہا جاتا ہے یعنی مومن خدا کے سامنے ذلیل اور بندوں کے سامنے عزیز ہونا چاہیے اس کی حکمت یہ ہے کہ عزیز دوسروں کی صفات، نصیحتیں، مشورے یا بیج قبول نہیں کرتاہے ہے اور ذلیل ان چیزوں کو قبول کرتاہے جس کی وجہ سے اس میں تبدیلی یا ہریالی آتی ہے۔اسی تناظر میں جب ہم لفظ تعریف کو پرکھتے ہیں تو اس سے یہ پہلو بھی سامنے آتا ہے کہ ہم اللہ تعالیٰ کی تعریف اس لیے کرتے ہیں تاکہ اس تعریف کے تناظر میں ہم اپنی کمزوریوں، لغزشوں، غلطیوں کو دور کرسکیں۔ یقیناً اللہ تعالیٰ ہماری حمدوثنا کا محتاج نہیں ہے۔ وہ ہر چیز پر قدرت و اختیار رکھتا ہے۔
مضمون نگار قراقرم انٹرنیشنل یونیورسٹی گلگت میں ایسوسی ایٹ پروفیسر ہیں
نوٹ(ادارے کا مضمون نگار کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں)