حافظ آباد گینگ ریپ کیس میں پیشرفت، ملزم کو فرار کرانے پر دو پولیس اہلکار گرفتار۔

Date:

پنجاب کے ضلع حافظ آباد میں پیش آنے والے انسانیت سوز گینگ ریپ کیس نے نہ صرف عوامی ضمیر کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے بلکہ پولیس نظام میں پائے جانے والے بدعنوانی، نااہلی اور غفلت پر بھی سنگین سوالات کھڑے کر دیے ہیں۔ واقعے کی ابتداء 25 اپریل کو ہوئی جب مانگٹ اوچا گاؤں کے قریب ایک شادی شدہ جوڑے کو اغوا کر کے، شوہر کے سامنے اس کی اہلیہ کے ساتھ اجتماعی زیادتی کی گئی، اس فعل کی ویڈیو بنا کر متاثرین کو بلیک میل کیا گیا اور واقعہ رپورٹ نہ کرنے کی دھمکی دی گئی۔ متاثرہ خاندان خوف کے مارے خاموش رہا، تاہم جب 2 جون کو اس واقعے کی ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی تو ڈی پی او حافظ آباد عاطف نذیر نے خود نوٹس لیتے ہوئے متاثرین کو تلاش کیا، ان سے ملاقات کی اور مقدمہ درج کرانے کے لیے قائل کیا۔

تحقیقات کے دوران ایک اور انتہائی تشویش ناک پہلو سامنے آیا کہ حمید پورہ پولیس چوکی کے اے ایس آئی کاشف محمود کو واقعے کی اطلاع پہلے ہی ہو چکی تھی اور انہوں نے مرکزی ملزم لائق مقصود کو گرفتار بھی کر لیا تھا، لیکن نہ صرف یہ گرفتاری خفیہ رکھی گئی بلکہ پولیس کے اعلیٰ افسران کو بھی مطلع نہیں کیا گیا۔ بعدازاں، انسپکٹر منیب لیاقت کی مداخلت پر مبینہ طور پر ایک لاکھ چالیس ہزار روپے رشوت لے کر ملزم کو چھوڑ دیا گیا۔ اس بدعنوانی کے انکشاف پر دونوں پولیس اہلکاروں کے خلاف پولیس آرڈر 2002 کی دفعہ 155(C) کے تحت مقدمہ درج کر کے انہیں گرفتار کر لیا گیا ہے۔

واقعے میں ملوث چار نامزد اور چار نامعلوم ملزمان کے خلاف مقدمہ درج کیا گیا جن میں سے دو ملزمان، خاور اور لائق، مبینہ پولیس مقابلے میں ہلاک ہو چکے ہیں جبکہ دیگر کی گرفتاری کے لیے چھاپے مارے جا رہے ہیں۔ ایف آئی اے نے دو دیگر مرکزی ملزمان، اکرام اور چاند، کے نام عبوری قومی شناختی فہرست (PNIL) میں شامل کر کے انہیں بیرون ملک فرار ہونے سے روکنے کے لیے تمام ائیرپورٹس اور سرحدی اداروں کو الرٹ کر دیا ہے۔

اس واقعے نے ملکی سطح پر شدید غم و غصے کو جنم دیا ہے اور ایک بار پھر یہ حقیقت عیاں ہو گئی ہے کہ پاکستان میں جنسی جرائم نہ صرف بڑھتے جا رہے ہیں بلکہ نظام انصاف میں موجود خامیاں ان کے انسداد میں بڑی رکاوٹ بنی ہوئی ہیں۔ اگرچہ حکومت نے انسداد زیادتی ایکٹ 2021 کے تحت اسپیشل سیکشوئل آفینسز انویسٹی گیشن یونٹس قائم کرنے کا اعلان کیا تھا، مگر اس کیس نے ثابت کر دیا کہ محض قانون سازی کافی نہیں، بلکہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اندر موجود کرپشن اور نااہلی کا خاتمہ بھی ازحد ضروری ہے۔

متاثرہ خاندان کو انصاف دلوانے کے لیے تمام ریاستی اداروں کو نہ صرف فوری اور غیر جانبدارانہ کارروائی کرنی چاہیے بلکہ متاثرین کی عزت نفس، تحفظ اور قانونی معاونت کو بھی یقینی بنانا ہوگا، تاکہ مستقبل میں ایسے واقعات کی روک تھام ممکن ہو سکے اور عوام کا اعتماد قانون اور ریاستی اداروں پر بحال ہو سکے۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here

Share post:

Subscribe

spot_imgspot_img

Popular

More like this
Related

جرنیل کے قتل کے الزام میں 6 سالہ بچی کو گرفتار کر لیا گیا۔

میانمار کی سیکیورٹی فورسز نے ایک ریٹائرڈ فوجی افسر،...

یوکرین نے روسی Su-35 طیارہ مار گرانے کا دعویٰ کیا۔

یوکرین کی فضائیہ نے ہفتے کی صبح دعویٰ کیا...

رانا ثنا اللہ کا کہنا ہے کہ پی ٹی آئی کو احتجاجی تحریک سے کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔

وزیر اعظم کے مشیر برائے سیاسی امور رانا ثنا...

عمر ایوب کے مطابق بانی پی ٹی آئی جلد رہا ہو کر قوم کے درمیان ہوں گے۔

قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر عمر ایوب نے عید...