معاہدہ ابراہیمی کیا ہے، کون کون سے مسلم ممالک اس کا حصہ بننے جا رہے ہیں؟

Date:

تحریر عارف کاظمی

معاہدہ ابراہیمی دراصل دوہزار بیس میں امریکا کی سرپرستی میں اسرائیل اور کچھ عرب ممالک جیسے متحدہ عرب امارات، بحرین، سوڈان اور مراکش کے درمیان ہونے والا ایک امن معاہدہ ہے،جسے ابراہام اکارڈ کاانگریزی نام دیا گیا اس معاہدے کے تحت یہ ممالک اسرائیل کے ساتھ اپنے تعلقات کو معمول پر لانے پر راضی ہوئے تھے۔ آپ سوچیں گے، یہ سب کیوں اور کیسے ہوا؟دراصل انیس سو اڑتالیس میں جب برطانیہ اور امریکا کے تعاون سے فلسطینیوں کی سرزمین پراسرائیل کاناجائز قیام عمل میں لایا گیا تو اسرائیل اپنے وجود میں آنے کے فوری بعد سے ہی خاص طورپر مسلم ممالک کی جانب سے تسلیم نہ کئے جانے کے مسلے سے دوچار ہوا.اس کی وجہ ایک اسلامی سرزمین پر غیر قانونی طورپر بزور طاقت اسرائیل کا قیام تھا،۔یوں پہلے ہی سال یعنی انیس سو اڑتالیس میں عرب اسرائیل جنگ ہوئی۔ اس کے بعد انیس سو چھپن اور انیس سو سڑسٹھ کی چھ روزہ جنگ میں عربوں کو نقصان بھی اٹھانا پڑا، بلکہ گولان کی انتہائی اہم پہاڑیوں سمیت متعدد علاقے بھی ان سے چھین کراسرائیل نے اپنی ریاست کو وسیع کیا،ابھی ماضی کے زخم تازہ ہی تھے کہ انیس سو تہتر میں ایک اور عرب اسرائیل جنگ پھوٹ پڑی جسے رمضان جنگ بھی کہا جاتا ہے،اس جنگ میں عربوں نے اسرائیل کو بہت جانی اور مالی نقصان پہنچایا لیکن امریکا و دیگر مغربی ممالک کی بروقت مدد سے جنگ کا نقشہ بدل گیا اور شکست خوردہ اسرائیل ایک بار پھر عربوں پر بازی لےگیا،جس کے ردعمل میں عربوں کے امریکا سے تعلقات انتہائی کشیدہ ہوگئے اور عربوں نے اسرائیل کی مدد کرنے والوں کو تیل کی سپلائی بند کردی نتیجتاً امریکا و یورپ میں زندگی کا پہیہ جام ہوگیا، پیٹرول اسٹیشنوں پر لمبی لمبی قطاریں لگ گئیں، یہ پہلا موقع تھا جب مغرب کو یہ احساس ہوا کہ وہ کس قدر عرب ممالک کے محتاج ہیں.اس بحران کے بعد جہاں امریکا اور یورپ نے مشرق وسطیٰ میں صورتحال اسرائیل کے حق میں کرنے کیلئے تگ و دو شروع کی وہاں بحران پیداکرنے والے عرب رہنماؤں کو نشان عبرت بنانے کی دھمکی بھی دی.اور اس بحران کے ایک سال کے اندر سعودی بادشاہ فیصل کو شہید بھی کردیا گیا، اور اس کے بعد سے تو کسی عرب رہنما نے امریکا بہادر کے سامنے سرہی نہ اٹھایا۔تاہم کئی دہائیوں تک فلسطین اور اسرائیل کے درمیان جھڑپیں اور تنازعات جاری رہے۔ اس کے باوجود عالمی طور پر عرب دنیا اوراسرائیل کےتعلقات کی بہتری کی کوششیں بھی جاری رہیں۔انیس سوستر کی دہائی کےاواخرمیں عرب اسرائیل تعلقات میں پہلی بڑی تبدیلی آگئی،انیس سواٹھہتر اور انیس سو نواسی میں اس وقت کے امریکی صدر جمی کارٹر نے مصر کو اسرائیل کا وجود تسلیم کرنے پر راضی کیا اور اس سلسلے میں کیمپ ڈیوڈ معاہدے پر اس وقت کے اسرائیلی وزیراعظم مناہم بیگن اور مصر کے صدر انور سادات نے دستخط کیے۔اُس موقع پر جمی کارٹر نے کہا تھا اچھا ہے کہ اب ہم جنگ کو ایک طرف رکھ دیں۔ آئیے، ہم ابراہیم علیہ السلام کے بچوں کو نوازیں جو مشرقِ وسطیٰ میں جامع امن کے لیے ترس رہے ہیں۔ آئیے، اب ہم مکمل انسان، مکمل پڑوسی اور مکمل بہن بھائی بننے کی حقیقت سے لطف اندوز ہوں۔اس معاہدے کے بعد انور سادات جہاں عالمی سطح پر مقبول ہوئے وہیں مصر میں ان کی مقبولیت کو گرہن لگنا شروع ہو گیا۔ اسرائیل کو تسلیم کرنے پر احتجاج شروع ہو گیا، جس کو کچلنے کے لئے طاقت کا استعمال بھی کیا گیا، جس سے لاوا اور پکا۔چھ ستمبر انیس سو اکیاسی کو یوم فتح کے موقع پرصدر انور سعادت کوفوجی پریڈ کے دوران گولی مار دی گئی، تبدیلی یہ آئی کہ انور سادات کے اس طرح انجام تک پہنچنے پر مزید عرب ممالک جو اسرائیل کو تسلیم کرنے جا رہے تھے، خاموشی اختیار کر گئے۔ تاہم انیس سو چورانوے میں اسرائیل اور اردن نےایک امن معاہدہ کیا،اوردونوں ممالک نے تعلقات بحال کئے لیکن دوسرے عرب ممالک کے ساتھ اسرائیل کے تعلقات جوں کے توں ہی رہے،اور فلسطین کا مسئلہ ہمیشہ مذاکرات میں اہم رکاوٹ بنا رہا۔ادھر امریکا کی بھی کوشش تھی کہ کسی طرح مشرق وسطیٰ میں اسرائیل اور عرب دنیا کے تعلقات کو معمول پر لایا جائےامریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ نے اس مقصد کو حاصل کرنے کے لیے صدی کی ڈیل کا منصوبہ پیش کیا۔ اس کے نتیجے میں، اسرائیل نے اپنے ہمسایہ عرب ممالک سے تعلقات قائم کرنے کے لیے براہ راست مذاکرات شروع کیے،جس کے نتیجے میں اسرائیل کو عرب دنیا کے کچھ ممالک کے ساتھ تعلقات قائم کرنے کا موقع ملا.دوہزارسو بیس میں، تاریخ نے ایک نیا موڑ لیا۔جب 15 ستمبردوہزار بیس کو امریکا کی سرپرستی میں اسرائیل، متحدہ عرب امارات اور بحرین نےایک معاہدے پر دستخط کیے جسے معاہدہ ابراہیمی کا نام دیا گیا۔اور آپ کومعلوم ہے کہ یہ سب کچھ کہاں ہواتھا؟ تو جناب اس معاہدے پر دستخط امریکا کے وائٹ ہاؤس میں اس وقت کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی میزبانی میں ہوئے تھے. اس معاہدے کے تحت، اسرائیل اور یو اے ای کے درمیان تجارتی، اقتصادی، ثقافتی اور دفاعی تعلقات کو بڑھانے پر اتفاق کیا گیا۔متحدہ عرب امارات کی حکومت کے تعاون سے ملک میں یہودی معبد کی تعمیرکی گئی جسے ابراہیمی فیملی ہاؤس کا نام دیا گیا اس میں بیک وقت مسجد، چرچ اور ملک کا پہلا یہودی معبد ایک ہی جگہ پر قائم کئے گئے،یہودیوں نے اس عبادت گاہ کے افتتاح پر ابوظہبی حکام کا شکریہ ادا کیا ۔اس کے بعدبحرین بھی اسرائیل کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے پر راضی ہوا۔ اور آپ کو یہ جان کر شاید حیرانی ہو کہ سوڈان اور مراکش نے بھی بعد میں اس معاہدے میں شمولیت اختیار کی۔ڈونلڈ ٹرمپ نے اس معاہدے کا کریڈٹ خود لیتے ہوئے اگلے انتخابات میں اس کا خوب استعمال بھی کیا لیکن پھر بھی اسے ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا.ابراہام ایکارڈ یعنی حضرت ابراہیم کے نام پر ہونے والے اس نام نہاد معاہدے کوچار سال سے زائد ہو چکے ہیں.اب امریکی حکومت سعودی عرب پاکستان سمیت دیگرکئی مسلم ممالک پر بھی اس نام نہاد معاہدے کا حصہ بننے پر دباؤ ڈال رہی ہیں.سعودی عرب کی جانب سے تو کہا گیا ہے کہ جب تک فلسطین کو بطور ریاست تسلیم نہیں کیا جاتا وہ اسرائیل کو تسلیم نہیں کرے گا تاہم سعودی حکام اسرائیلی شہریوں اور مذہبی اور سیاسی رہنماؤں کی سعودی عرب دوروں کو بھی چھپائے نہیں چھپا پا رہے۔اگرمستقبل میں اسرائیل اور سعودی عرب کے مابین کوئی معاہدہ طے پا جاتا ہے تو اس کا دباؤ پاکستان پر بھی آئے گا۔ کیونکہ کہا جاتا ہے کہ یہ سعودی عرب کی ہی سٹریٹجی تھی کہ پہلے متحدہ عرب امارات اور دیگر ممالک اسرائیل کو تسلیم کریں۔ اگر اسلامی دنیا کا واحد نیوکلیئر ملک یعنی پاکستان اسرائیل کو تسلیم کر لے گا تو سعودی عرب کے لیےبھی ایسا کرنا قدرے آسان ہو گا.لیکن یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ اسرائیل اور فلسطیینیوں کے درمیان جاری اس تصادم کی صورت حال نے کئی عرب ریاستوں اور اسرائیل کے درمیان بڑھتی ہوئی گرمجوشی کے کھلے عام اظہار کو بھی لگام ڈال دی ہے.کچھ ہی عرصہ پہلےجو مملک اپنے عوام کو خوش خوشی بتا رہے تھے کہ اسرائیل کے ساتھ دوستی کے بعد انہیں تجارت، سیاحت، طبی تحقیق، ماحول دوست معاشیات اور سائنسی ترقی کے شعبوں میں کتنے فوائد حاصل ہوں گے،آج ان کی نظروں کے سامنے ٹی وی اسکرینوں پرغزہ پر اسرائیلی بمباری کے مناظر ہیں،غزہ میں جگہ جگہ ملبے کے ڈھیر ہیں،مشرقی یروشلم میں اپنے گھروں سے طاقت کے زور پر نکالے جانے والے فلسطینیوں کی ویڈیوز ہیں، اور وہ مناظربھی ہیں جن میں اسرائیلی پولیس مسجد اقصیٰ پر دھاوا بولتی دکھائی دے رہی ہے۔تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ موجودہ لڑائی اسرائیل اور اس کے عرب ساتھیوں کے درمیان مستقبل کے تعلقات پر کیسے اثر انداز ہو گی؟اس کے جواب کا انحصار بڑی حد تک اس بات پر ہے کہ موجودہ صدر ٹرمپ جو کہ نام نہاد معاہدہ ابراہیمی کا خالق بھی ہیں وہ کس حد تک اپنی دباؤ کا استعمال کر سکیں گے کہ مسلم ممالک اس معاہدے کا حصہ بن سکیں،خیر یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا کہ کون ٹرمپ کےٹریپ میں آکر معاہدے کا حصہ بنتا ہے اورکون فلسطینیوں کے حقیقی خیر خواہ کا کردارادا کرتا ہے، غزہ جنگ بندی کے بعد اب اسرائیل کو عبرتناک شکست کا سامنا کرنا پڑا ہے، لاکھوں بے گھر فلسطینی اپنے گھروں کو لوٹ رہے ہیں ایسے میں نئے مشروق وسطیٰ کا اسرائیلی اور امریکی خواب تو چکنا چور ہوچکا ہے، اسرائیل سے دوستی کے خواہاں عرب اورچند مسلم ممالک کا اب کیا بنے گا یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا،تو پھر انتظار کیجئے اس آنے والے وقت کا

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here

Share post:

Subscribe

spot_imgspot_img

Popular

More like this
Related

ڈیجیٹل تبدیلی اور ٹیکنالوجی کا ارتقاء

تحریر عارف کاظمی ایک وقت تھا، جب علم کی روشنی...

پاکستان مین افغان مہاجرین کا مسئلہ،جلد واپسی ضروری ہے

تحریر عارف کاظمی پاکستان میں افغان مہاجرین کی آمد، ان...