پاکستان سمیت علاقائی طاقتوں کی افغانستان میں غیر ملکی اڈوں کی مخالفت

Date:

ماسکو فارمیٹ کے اجلاس میں افغانستان کے حوالے سے شریک ممالک پاکستان، چین، روس، ایران اور بھارت سمیت بڑی علاقائی طاقتوں نے مشترکہ اعلامیہ جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ افغانستان میں کسی بھی غیر ملکی فوج کی موجودگی کی کوئی گنجائش نہیں ہونی چاہیے۔اجلاس میں شریک ممالک نے اس بات پر زور دیا کہ تمام ریاستیں افغانستان کی خودمختاری، آزادی اور علاقائی سالمیت کا احترام کریں اور اس ملک کو بیرونی مداخلت سے محفوظ رکھنے کے لیے عملی اقدامات اٹھائیں۔

یہ اعلامیہ روسی دارالحکومت ماسکو میں پیر کے روز جاری کیا گیا۔یہ اجلاس ایسے وقت میں منعقد ہوا جب  امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے چند ہفتے قبل بیان دیا تھا کہ واشنگٹن بگرام ایئربیس دوبارہ حاصل کرنے کی کوشش کر رہا ہے کیونکہ یہ چین کے قریب ہونے کی وجہ سے دفاعی طور پر نہایت اہم ہے۔ یہی ایئربیس دو دہائیوں تک افغانستان میں امریکی افواج کا مرکز رہا، جسے 2021 میں انخلا کے وقت خالی کر دیا گیا تھا۔مشترکہ اعلامیہ میں کہا گیا کہ شرکائے اجلاس نے اس بات پر اتفاق کیا کہ کسی بھی بہانے کے تحت افغانستان یا اس کے ہمسایہ ممالک میں غیر ملکی افواج کی موجودگی ناقابلِ قبول ہے۔اعلامیے میں کہا گیاہم افغانستان کو ایک خودمختار، متحد اور پرامن ریاست کے طور پر دیکھنا چاہتے ہیں، جو بیرونی دباؤ یا مداخلت سے آزاد ہو۔اعلامیہ میں اگرچہ امریکا یا ٹرمپ کا براہِ راست ذکر نہیں کیا گیا، تاہم کہا گیا کہ افغانستان کے اندر یا اس کے اردگرد کسی ملک کی فوجی تنصیبات کا قیام خطے کے امن کے لیے نقصان دہ ثابت ہوگا۔

اس اجلاس میں پاکستان، چین، روس، بھارت، ایران، قازقستان، کرغزستان، تاجکستان اور ازبکستان کے خصوصی نمائندے شریک ہوئے، جبکہ افغانستان کی عبوری حکومت کے وزیرِ خارجہ امیر خان متقی پہلی مرتبہ مکمل رکن کی حیثیت سے شریک ہوئے۔شرکائے اجلاس نے زور دیا کہ افغان حکومت دہشت گردی کے خاتمے کے لیے مؤثر اور جامع اقدامات کرے تاکہ اس کی سرزمین کسی دوسرے ملک کے خلاف استعمال نہ ہو۔اعلامیے میں کہا گیا کہ افغانستان کی زمین کسی بھی ملک کے خلاف حملوں یا دہشت گرد گروہوں کی پناہ گاہ کے طور پر استعمال نہیں ہونی چاہیے۔پاکستان کی شرکت ایسے وقت میں ہوئی جب اسلام آباد اور کابل کے تعلقات میں کشیدگی پائی جا رہی ہے۔ پاکستان کے مطابق تحریکِ طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) اور دیگر شدت پسند گروہ افغان سرزمین سے حملے کر رہے ہیں، تاہم طالبان انتظامیہ ان الزامات کی تردید کرتی ہے۔اس کے باوجود پاکستان نے طالبان حکومت کے ساتھ سفارتی روابط برقرار رکھے ہیں۔ کابل میں پاکستانی سفارت خانہ فعال ہے اور دونوں ممالک کے درمیان اعلیٰ سطحی وفود کے تبادلے جاری ہیں۔حالیہ مہینوں میں پاکستان، چین اور افغانستان کے درمیان سہ فریقی بات چیت میں چین پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک) کو افغانستان تک توسیع دینے پر اتفاق بھی کیا گیا ہے۔پاکستان کے خصوصی نمائندہ برائے افغانستان محمد صادق خان نے سوشل میڈیا پر بتایا کہ ماسکو اجلاس کے دوران پاکستان، چین، روس اور ایران کے درمیان ایک علیحدہ چہار فریقی اجلاس بھی منعقد ہوا، جس میں متعدد نامزد دہشت گرد تنظیموں بشمول ٹی ٹی پی، بی ایل اے، جیش العدال، داعش اور القاعدہ کی موجودگی پر گہری تشویش کا اظہار کیا گیا۔

اعلامیے میں اس بات پر زور دیا گیا کہ افغانستان کو دہشت گردی سے مکمل طور پر پاک کرنے کے لیے مشترکہ اقدامات کیے جائیں تاکہ خطے کے امن و استحکام کو خطرہ نہ ہو۔مزید برآں، شرکائے اجلاس نے افغانستان کے ساتھ تجارتی و معاشی تعاون بڑھانے پر اتفاق کیا تاکہ پائیدار ترقی، زراعت، صحت اور غربت میں کمی کے منصوبوں کو فروغ دیا جا سکے۔اعلامیے میں عالمی برادری سے اپیل کی گئی کہ وہ افغان عوام کو انسانی بنیادوں پر امداد فراہم کرنے کا سلسلہ جاری رکھے۔تمام شریک ممالک نے متفقہ طور پر کہا کہ افغانستان یا اس کے ہمسایہ ممالک میں کسی بھی ملک کی جانب سے فوجی ڈھانچے یا اڈے قائم کرنا ناقابلِ قبول ہے، کیونکہ ایسی سرگرمیاں خطے کے امن کے لیے نقصان دہ ہوں گی۔ماسکو فارمیٹ، جو 2017 میں قائم کیا گیا تھا، افغانستان کے حوالے سے سب سے اہم علاقائی پلیٹ فارم سمجھا جاتا ہے، جو ہمسایہ ممالک اور بڑی طاقتوں کو ایک مشترکہ مکالمے میں اکٹھا کرتا ہے۔تجزیہ کاروں کے مطابق یہ فورم علاقائی طاقتوں کے لیے طالبان پر دباؤ بڑھانے کا ایک ذریعہ ہے تاکہ وہ انسانی حقوق، جامع طرزِ حکمرانی اور انسدادِ دہشت گردی سے متعلق عالمی توقعات پر پورا اتریں۔سیکیورٹی ماہر سید محمد علی کے مطابق، یہ فورم افغان طالبان کو باور کراتا ہے کہ ان کی بین الاقوامی سیاسی حیثیت اور معاشی استحکام، اُن کے رویے اور پالیسیوں پر منحصر ہے۔ڈاکٹر قمر چیمہ (ایگزیکٹو ڈائریکٹر، سینوبر انسٹیٹیوٹ) کے مطابق، پاکستان طالبان کو یہ احساس دلانے کی کوشش کر رہا ہے کہ وہ اب ایک ریاست کے حکمران ہیں، غیر ریاستی عناصر نہیں۔ان کے مطابق علاقائی ممالک کا مشترکہ دباؤ طالبان کو زیادہ ذمہ دار طرزِ حکمرانی کی طرف لے جا سکتا ہے، جو خطے کے امن کے لیے ناگزیر ہے۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here

Share post:

Subscribe

spot_imgspot_img

Popular

More like this
Related