ستائیس ویں آئینی ترمیم کے منظور ہوتے ہی سپریم کورٹ آف پاکستان کے جج جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس اطہر من اللہ نے اپنے عہدوں سے استعفیٰ دے دیا ہے۔ دونوں ججز نے اپنے استعفے صدرِ مملکت آصف علی زرداری کو ارسال کیے ہیں۔
عدالتی ذرائع کے مطابق،جسٹس منصور علی شاہ نے اپنے استعفے میں مؤقف اختیار کیا ہے کہ 27ویں ترمیم کے ذریعے سپریم کورٹ کی آزادی کو نقصان پہنچایا گیا ہے اور یہ اقدام آئین پر کاری ضرب کے مترادف ہے۔
انہوں نے کہا کہ اس ترمیم کے بعد انصاف عام آدمی سے دور اور عدلیہ حکومت کے ماتحت ہو گئی ہے۔ جسٹس منصور علی شاہ نے اپنے استعفے میں احمد فراز کے اشعار بھی شامل کیے اور لکھا کہ عدلیہ کی تقسیم ملک کو دہائیوں پیچھے لے گئی ہے۔

دوسری جانب جسٹس اطہر من اللہ نے اپنے استعفے میں مؤقف اختیار کیا کہ 27ویں ترمیم کے بعد وہ آئین باقی نہیں رہا جس کا انہوں نے حلف اٹھایا تھا۔ ان کے بقول آئین اب محض ایک سایہ رہ گیا ہے اور وہ خاموشی کے ذریعے اپنے حلف سے غداری نہیں کرسکتے۔
انہوں نے لکھا کہ 11 سالہ عدالتی خدمات کے دوران وہ ہمیشہ آئین کی حفاظت کے عہد پر قائم رہے۔ جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ انہیں ترمیم پر شدید تحفظات تھے جن سے متعلق انہوں نے چیف جسٹس کو خط بھی لکھا تھا، مگر ان کے خدشات درست ثابت ہوئے۔
استعفے کے اختتام پر انہوں نے لکھا کہ امید ہے آنے والی نسلیں ججوں کے جبے کو دیانت کی علامت سمجھیں گی۔
واضح رہے کہ حکومت نے 27ویں آئینی ترمیم کے تحت وفاقی آئینی عدالت کے قیام کا فیصلہ کیا ہے جو آئینی نوعیت کے مقدمات سنے گی۔ حکومت کا مؤقف ہے کہ سپریم کورٹ کا زیادہ وقت آئینی مقدمات میں صرف ہونے سے عام کیسز میں تاخیر ہو رہی تھی، اس لیے نیا نظام متعارف کرایا گیا ہے۔


