اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے حالیہ اجلاس میں افغانستان میں سرگرم فتنہ الخوارج کے دہشت گرد عزائم ایک بار پھر عالمی سطح پر بے نقاب ہو گئے۔
اجلاس کے دوران ڈنمارک اور روس نے نہ صرف اس سنگین خطرے کی نشاندہی کی بلکہ افغان طالبان کی سرپرستی میں سرگرم دہشت گرد گروہوں کے خطے اور دنیا کے لیے بڑھتے ہوئے خدشات پر عالمی برادری کو خبردار بھی کیا۔
دونوں ممالک نے فتنہ الخوارج کو وسطی اور جنوبی ایشیا میں براہِ راست خطرہ قرار دیتے ہوئے پاکستان کے مؤقف کی بھرپور تائید کر دی۔
روسی مستقل مندوب واسیلی نیبینزیا نے اپنے خطاب میں کہا کہ افغانستان میں دہشت گرد تنظیموں کی موجودگی سے خطے میں عدم استحکام کا خطرہ بڑھ رہا ہے اور دہشت گردی وسطی ایشیا سمیت دور تک پھیلنے کے واضح آثار موجود ہیں۔
ان کے مطابق خراسان صوبے میں داعش تیزی سے طاقت حاصل کر رہی ہے جبکہ افغانستان مغربی افواج کے چھوڑے گئے اسلحے سے فائدہ اٹھا کر دہشت گرد گروہوں کو زیادہ خطرناک بنا رہا ہے۔
انہوں نے مزید بتایا کہ دہشت گرد گروہ جدید ٹیکنالوجی کا استعمال کرتے ہوئے اپنے ناپاک عزائم کو عملی جامہ پہنا رہے ہیں اور اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق افغانستان میں سینکڑوں دہشت گرد گروہ سرگرم ہیں۔
ڈنمارک کی مستقل مندوب کرسٹینا مارکس لاسن نے بھی افغانستان میں موجود دہشت گرد گروہوں کو خطے کی سلامتی کے لیے انتہائی سنگین خطرہ قرار دیا۔
ان کا کہنا تھا کہ کالعدم ٹی ٹی پی، جسے فتنہ الخوارج بھی کہا جاتا ہے، کو افغان حکومت نما حکام کی جانب سے عملی اور خاطر خواہ مدد فراہم کی جا رہی ہے۔
انہوں نے انکشاف کیا کہ افغانستان میں تقریباً چھ ہزار ٹی ٹی پی کے دہشت گرد موجود ہیں جو پاکستان پر افغان سرزمین سے بڑے حملوں میں ملوث ہیں۔
ڈینش مندوب نے واضح کیا کہ افغانستان میں پلنے والے یہ دہشت گرد گروہ صرف پاکستان نہیں بلکہ پورے خطے کے امن، استحکام اور سلامتی کے لیے براہِ راست خطرہ بن چکے ہیں۔
سلامتی کونسل کے اجلاس میں سامنے آنے والی یہ عالمی گواہیاں پاکستان کے دیرینہ مؤقف کی تصدیق کرتی ہیں کہ افغان طالبان کی سرپرستی میں فتنہ الخوارج اور دیگر دہشت گرد گروہوں کی بڑھتی ہوئی سرگرمیاں پورے خطے کو غیر مستحکم کرنے کا باعث بن رہی ہیں۔


