سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے انسانی حقوق کو بریفنگ میں بتایا گیا ہے کہ دنیا کے 61 ممالک میں اس وقت 21 ہزار 647 پاکستانی قید ہیں۔
ایڈیشنل سیکریٹری وزارت داخلہ نے کمیٹی کو آگاہ کیا کہ ایک پڑوسی ملک نے پاکستان کے نظام میں مداخلت کرتے ہوئے غیر قانونی طور پر پاسپورٹس بنوائے، جس میں کرپشن کے امکانات موجود ہیں۔
چیئر پرسن کمیٹی ثمینہ ممتاز نے انسانی اسمگلنگ کے بڑھتے ہوئے خطرات پر تشویش ظاہر کی اور کہا کہ عوام کو مناسب آگاہی نہ ملنے کی وجہ سے بہت سے لوگ غیر قانونی راستوں کے خطرناک نتائج سے ناواقف ہیں۔
انہوں نے ایئرپورٹس پر آگاہی بینرز کی عدم موجودگی کو بھی سنگین غفلت قرار دیا اور انسانی اسمگلنگ میں ملوث گروہوں کی سرگرمیوں کی نشاندہی کی۔
ثمینہ ممتاز نے مطالبہ کیا کہ ایران میں سخت سزاؤں کے بعد وہاں قید پاکستانیوں کی تازہ تعداد اور حکومتی آگاہی مہمات پر تفصیلی بریفنگ دی جائے۔
سیکریٹری وزارت داخلہ نے اجلاس کو بتایا کہ چند ماہ قبل سعودی عرب نے بڑی تعداد میں پاکستانی واپس بھیجے، جن میں کئی افغان شہری بھی پاکستانی شناخت کے ساتھ شامل تھے۔
انہوں نے کہا کہ اب 18 سے 20 کروڑ پاکستانیوں کا ڈیجیٹل ریکارڈ موجود ہے اور شناخت کی فوری تصدیق ممکن ہے۔ بیرون ملک گرفتار پاکستانی زیادہ تر معمولی جرائم جیسے اوور اسٹے، شناختی فراڈ یا بینک فراڈ میں ملوث ہیں، جبکہ سنگین جرائم میں شامل شہری بہت کم ہیں۔
سیکریٹری کے مطابق وزیراعظم کی ہدایت پر انسانی اسمگلنگ کے بڑھتے ہوئے واقعات پر مختلف ممالک کے دورے کیے گئے۔ انہوں نے بتایا کہ پنجاب کے گجرات، وزیرآباد، شیخوپورہ اور لاہور سمیت کئی اضلاع سے منظم نیٹ ورک سامنے آئے، جو دبئی اور مشرقِ وسطیٰ میں سرگرم ہیں۔
انسانی اسمگلرز معصوم نوجوانوں کو یورپ پہنچانے کے بہانے 43 سے 50 لاکھ روپے تک وصول کرتے ہیں اور انہیں خطرناک اور غیر قانونی راستوں پر بھیج دیتے ہیں۔ متعدد پاکستانی 6 سے 8 ماہ تک جبری مشقت اور غیر انسانی حالات میں رہنے پر مجبور کیے جاتے ہیں۔


