مبارک ہو* *برکت ہو* مگر تعصب اور بلاوجہ کی مخالفت نہ ہو۔

Date:

خود کلامی از ارسلان صدیقی
آج یکم محرم الحرام 1446 ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ وقت کے اعتبار سے آج کے دن ہم تمام جہانوں کی خبر دینے والے، دنیا کو پہلی بار بغیر سیٹیلائٹ مؤثر ابلاغ عامہ کرکے دکھانے والے صحافی، اور لوح قلم کے پہلے معلم سید الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجرت کے دن سے 1446 برس دور ہوگئے ہیں۔ لیکن اتنی صدیاں بیت جانے کے باوجود ہم اس ہجرت کے دن کو یاد رکھتے ہیں۔مطلب یہ ہوا کہ تعلیم و تدریس یا ابلاغ کا راستہ آسان نہیں۔ اپنا گھر، وراثت، بزرگوں کی قبریں، رشتے دار، جائیداد، وطن سب پیچھے چھوڑ کر ہجرت کرنا پڑجاتی ہے۔ جاہلوں کو سچائی کی تعلیم دینا مشکل ہوتا ہے۔ کبھی مار کھانا پڑتی ہے تو کبھی شعب ابوطالب میں قید ہوکر سوشل بائیکاٹ بھگتنا پڑتا ہے۔ کبھی نہ چاہتے ہوئے بھی یلغار سہنا پڑتی ہے۔ اور یہاں تک کہ کبھی اپنے دل کے سب سے قریب رہنے والے عزیزوں اور دوستوں کے بےقصور قتل کا دکھ سہنا پڑتا ہے۔ یہاں بھی بات ختم نہیں ہوتی بلکہ آپ کے دنیا جانے کے بعد بھی آزادی ابلاغ کی مخالف شیطانی قوت پہلے آپ کے قریبی دوستوں اور پھر گھر والوں نواسوں اور انکی اولاد کو بھی صحرائے کربلا میں مار دیتی ہے لیکن یہ علم و ابلاغ کا دشمن آج تک مخبرالعالمین سید الا المبلغین اور رحمت اللعالمین صلی اللہ علیہ وسلم کے نظریاتی وارثوں اور جانثاروں سے اس قدر ڈرتا ہے کہ آج 1446 ہجری میں بھی اس نے پوری زمین کو کربلا بنایا ہوا ہے۔,میں کہتا ہوں کہ
*یہ کربلائے نو ہے، یزید بھی نیا ہے*
*جمع ہے لشکر یزید، حسین پھر تنہا ہے*
آج بھی یزید کے ایجنڈے پر کام کرنے والا گندا شیطانی خون حق کا پرچم بلند کرنے والے اساتذہ اور ابلاغ کاروں کے ساتھ ویسا ہی سلوک کررہا ہے جو اس نے کربلا میں انسانیت کے ساتھ کیا تھا۔ انسانیت کی روح نکالنے کی ناکام کوشش کی تھی۔ انسانیت کو خوف کے بت کی پوجا کرنے پر مجبور کردیا تھا۔ مگر نہ اس وقت کا یزید یہ جانتا تھا اور نہ آج کا یہ سمجھتا ہے کہ غیب کی خبریں دینے والے کے وارثوں میں حر بھی ہیں اور جون بھی۔ جو آج تک چلی آرہی اس نظریاتی لڑائی میں جنگ کا نقشہ بدلنے کے لیے تیار بیٹھے ہیں۔
اقبال کہتا ہے کہ
**دور ہنگامہ گلزار سے یکسو بیٹھے*
*تیرے دیوانے بھی ہیں منتظر ھو بیٹھے۔**
آج یکم محرم یعنی نئے سال کی مبارکباد دیتے ہوئے اور اس کی پہلی تاریخ کو حق و باطل کا فرق سمجھانے والے فاروق اعظم عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہا کو یاد کرتے ہوئے میری دعا ہے کہ اللہ ہمیں حر یا جون جیسی ہمت اور ضمیر عطا کرے کہ ہم طاغوت کا لشکر چھوڑ کر نبی کے جانثار بن جائیں۔ حق کی آواز اٹھائیں، انسانیت کو بغیر کسی تعصب اور جانبداری کے سچائی کی تعلیم دیں، راستہ دکھائیں۔ اور اس جیتی ہوئی جنگ میں حسین ابن حسین اور ابن حسین بنتے جائیں آمین

(ادارے کا مضمون نگار کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں)

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here

Share post:

Subscribe

spot_imgspot_img

Popular

More like this
Related

شعیب ملک اور ثنا جاوید کی دوحا میں ریمپ واک توجہ کا مرکز بن گئی

شعیب ملک اور ان کی دوسری اہلیہ اداکارہ ثنا...

امریکا بہت جلد مضبوط، عظیم اور پہلے سے کہیں زیادہ کامیاب ملک بنےگا,ٹرمپ

ڈونلڈ ٹرمپ نے امریکا کے47 ویں صدر کی حیثیت...

پاکستان اسٹاک ایکسچینج میں کاروبار کا مثبت آغاز، انٹر بینک میں ڈالر سستا ہو گیا۔

پاکستان اسٹاک ایکسچینج میں کاروبار کے دوران 100 انڈیکس...