ہم بزرگوں کی صحبت میں بیٹھےہوئےتھےگلگت بلتستان کے سماجی رویوں پر بات ہورہی تھی ہرشخص اپنے مشاہدات وتجربات بیان کررہا تھا، اتنے میں ایک بزرگ کہنے لگے مجھے اپنا بچپن بہت عزیز ہے، اس عہد کی حسین یادوں کے سہارے میں اپنے بقیہ دن گزار رہا ہوں، اس عہد میں یہاں کے راستے دشوار گزار تھے لوگ بآسانی یہاں نہیں پہنچتے تھے، البتہ جو یہاں پہنچتے تھے وہ اپنے فن میں ماہر ہوتے تھے، وہ یہاں کے لوگوں کو کچھ دے کر جاتے تھے ، علمائے کرام جب یہاں آتے تھے تو تمام مسالک کے لوگ ان کا بھرپورانداز میں استقبال کرتے تھے اور وہ علمائے کرام یہاں کے لوگوں کو اپنی اولاد کی طرح ان کی فکری تربیت کرتے تھے ان کی آغوشِ تربیت میں رہنے والے معاشرے کے بہترین افراد میں شمار ہوتے تھے، مرحوم جمشیدخان دکھی(اللہ تعالی ان کے درجات بلند فرمائے) اکثر کہاکرتے تھے کہ ہم کشروٹ والے آیت اللہ ابوالقاسم خوانساری مرحوم مجینی محلہ والے کے دعاگو ہیں یعنی جب وہ یہاں کے بعض لوگوں کے رویوں سے دلبرداشتہ ہوکر واپس ایران جانے کے لیے نکلتے تھے توہم کشروٹ والے انہیں اپنے ہاں ایک رات گزارنے کی التجاکرتے تھے، آیت اللہ ابوالقاسم خوانساری ہماری درخواست پر اپنے سفر کو موقوف کرکے ہمارے ہاں ٹھہرجاتے تھے ، ہمارے بزرگ ان کی خدمت کرتے تھے اور ان سے ملتجی ہوتے تھے کہ آپ گلگت چھوڑ کرنہ جائیں، اگرآپ اس محلہ میں ناراحت ہیں تو آپ یہاں تشریف لائیں ہم سب آپ کی خدمت کریں گے، پھر آیت اللہ ابوالقاسم خوانساری مرحوم اپنے ہاتھوں کو اٹھاکر ہمارے لیے دعا کرتے اور اپنا ارادہِ سفر ملتوی کرتے۔اس اعتبار سے یہاں آنے والے علمائے کرام نے لوگوں کو ادب سکھائی، تہذیب سکھائی، پیارومحبت ، دلجوئی، عفودرگذر، بزرگوں کا احترام، مہمان نوازی کے فیوض و برکات سے آگاہ کیا۔ محرم الحرام کے بنیادی مقاصداور حضرت امام حسین علیہ السلام کی قدآورشخصیت کو بیان کرتے تھے، یہاں کے لوگ رسول اللہﷺ کے پیارے نواسے حضرت امام حسین علیہ السلام کے سچے عاشق تھے، یہی وجہ ہے کہ اس عہدمیں گلگت بلتستان کے جہاں دیدہ اور معاملہ فہم لوگ امامِ عزت وشرف حضرت امام حسین علیہ السلام کی لازوال قربانی کی یاد بھرپورانداز میں مناتے تھے، آپ علیہ السلام سے رشتوں کی عظمت کو سمجھتے تھے، ہمسائیگی میں رہنے والے انسانوں کے حقوق کی ادائیگی کا ہنرجانتے تھے، بزرگوں کا احترام کرنا سیکھتے تھے، اہلِ علم اور اہلِ شر کی تفریق کرتے تھے، جس کی وجہ سے یہاں بسنے والے پُرامن تھے، مہمان نواز تھے، غریب پرور تھے، ہمدرد تھے، حلال لقمے کی تلاش میں سنگلاخ اور دشوار گزار راستوں سے ہوتے ہوئے چراگاہوں تک آباد رکھتے تھے، تہذیبِ عزاداری یہ ہے کہ عزادار کا دل نرم ہووہ اخلاقِ حسنہ کا عملی مبلغ ہو، لوگ عزادار کی ظاہری کیفیت دیکھ کر یہ پوچھنے پر مجبور ہوں کہ بھائی جان آپ کیوں پریشان ہیں؟ آپ کیوں اذیت میں ہیں؟ آپ کا چہرہ کیوں متغیرہے؟ آپ کی یہ حالت دیکھ کر ہمیں ایسا لگ رہا ہے کہ آپ کا کوئی عزیز ، سرپرست آپ سے بچھڑ گیا ہے؟ہاں ہاں واقعی ہمارا عزیز، ہماراسرپرست، نواسہ رسول، جگرگوشہ علی وبتول حضرت امامِ حسین علیہ السلام اپنے اصحاب وانصار اور خاندان والوں کے ساتھ سن ۶۱ھ کو کربلامیں تین دن کا بھوکا پیاسا ماراگیا، کاش ہم اس عہد میں ہوتے تو ہم اپنے مولا وآقا کو بچانے کےلیے اپنی جان قربان کردیتے مگر آج ہم سب ملکر اپنے مظلوم امام کے ظالم قاتلوں کو بے نقاب کرنے کے لیے دنیا کے صاحب اختیار لوگوں کے سامنے صدائے احتجاج کرتے ہیں اور اپنے رحیم وکریم پروردگار کی بارگاہ میں دعا کرتے ہیں کہ اے ہم سب کے مالک و مختار پروردگار قاتلانِ امام حسین کو دنیا وآخرت میں ذلیل ورسوا کر۔ آمین یارب اللعالمین۔
( ادارے کا مضمون نگارکےخیالات سے متفق ہوناضروری نہیں)