تحریر :ارسلان صدیقی
صبح دفتر پہنچا تو سب سے بڑی خبر ملی۔ سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ پر قاتلانہ حملہ ہوا ہے اور سابق صدر کو امریکی سیکریٹ سروس نے ریسکیو کیا۔ بطور پاکستانی صحافی میرا دماغ فوراً ہمارے پاپولر سیاست دان عمران خان پر ہونے والے قاتلانہ حملے کی طرف گیا۔اب میرے دماغ میں سوالات آنا شروع ہوگئے۔ میرادماغ مجھےبتارہا تھا کہ ٹرمپ اورخان کی سیاست اور رویےمیں کافی مماثلت ہے،اور ان دونوں کے سیاسی حالات بھی تقریباً ایک جیسے ہی ہیں، ٹرمپ بھی مقدمات بھگت رہے ہیں اور خان بھی۔ دونوں تبدیلی چاہتےہیں۔دونوں آزاد سوچ رکھتے ہیں۔تو اب دماغ میں سب سے پہلا سوال یہ آیا کہ امریکیوں اور پاکستانیوں میں کیا فرق ہے۔ ٹرمپ پر حملہ ہوا تو انکے امریکی مخالفوں نے کیسا برتاؤ کیا اور ہمارے پاکستانیوں کا رویہ اور عمل کیا تھا۔دونوں کیسز میں ملتا جلتا کیا ہے اور فرق کیا ہے؟ دماغ نے اب جواب تراشنا شروع کیے۔ آپ بھی پڑھیں اپنے دماغ سے گفتگو بڑی دلچسپ ہے۔
سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور سابق پاکستانی وزیر اعظم عمران خان پر حملوں میں کچھ مماثلتیں ہیں، لیکن ان میں نمایاں فرق بھی ہے۔
سب سے پہلے مماثلت دیکھتے ہیں۔ کہ حملے کے بعد کیا ہوا؟دونوں کو سیاسی ریلیوں کے دوران بظاہر قاتلانہ حملے میں نشانہ بنایاگیا۔ان حملوں کی اپنے اپنےممالک میں تمام سیاسی رہنماؤں کی طرف سے بڑے پیمانے پر مذمت کی گئی سیاسی تشدد اور اشتعال انگیز بیان بازی کو کم کرنے کی ضرورت کے بارے میں خدشات کا اظہار کیا گیا تھا اب یہ دیکھیں کہ مختلف کیا ہوا۔ یعنی پاکستانیوں کا کیا رویہ اور عمل تھا اور امریکیوں کا کیا ہے۔ٹرمپ کی سیکیورٹی پر مامور امریکی سیکریٹ سروس تھی لہذا انہیں فوراً سیکریٹ سروس یعنی گورنمنٹ نے ریسکیو کیا۔ اسپتال پہنچایا۔ اور ایف بی آئی نے ٹرمپ پر حملے کے ساتھ ہی فوری طور پر قاتلانہ حملے کے طور پر تحقیقات شروع کردیں قاتل کو بھی شناخت کرلیا اور میڈیا کو بھی بتادیا۔ جبکہ پاکستانی حکومت نے ابتدا میں عمران خان پر حملے کے خلاف ایف آئی آر درج کرنے میں رکاوٹیں ڈالیں۔ خان کے پاس اپنی ذاتی سیکیورٹی پر بھروسہ کرنے کے سوا کوئی چارہ نہ تھا۔ یہاں تک کہ وہ قریبی سرکاری اسپتال بھی نہیں گئے بلکہ جان کو خطرے میں ڈال کر شوکت خانم اسپتال جانا پڑا۔وہاں امریکا میں سیکرٹ سروس نے ٹرمپ کو فوری طور پر تحفظ فراہم کیا اور بچاکرلے گئے جب کہ عمران خان حملے میں زخمی ہوئے۔ اور انکا ایک کارکن بھی حملہ آور کے ہاتھوں جان سے گیا۔ خان پر کئی گولیاں چلیں جبکہ ٹرمپ پر صرف پانچ گولیاں چلیں اور حملہ آور چھپتا رہا۔ جبکہ یہاں حملہ آور نے دیگر لوگوں پر بھی فائرنگ کی۔ادھر امریکی حکومت اور دونوں جماعتوں کے رہنماؤں نے ٹرمپ پر حملے کی مذمت کی اور مجرم کو انصاف کے کٹہرے میں لانے کے عزم کا اظہار کیا۔ اس کے برعکس عمران خان پر حملے پر پاکستانی حکومت کا ردعمل یہ تھا کہ وہ کیس کو الجھا رہی تھی اور ایف آئی آر کے اندراج میں بھی رکاوٹ ڈال رہی تھی جس کا فائدہ حملہ آور کو ہی ہونا تھا اور ہوا بھی۔جو خود کی عزت کرتے ہیں انکی سب عزت کرتے ہیں۔ امریکی سابق صدر پر حملہ ہوا تو پاکستان سمیت برطانیہ، جاپان اور ہندوستان جیسے ممالک کے عالمی رہنماؤں نے ٹرمپ پر حملے کی مذمت کی اوران کی جلدصحت یابی کی خواہش کی عالمی میڈیا کے لیے یہ خبر ہیڈ لائن بن گئی دوسری طرف عمران خان پر حملے کی بین الاقوامی سطح پر مذمت تو ہوئی لیکن اس طرح نہیں جیسے ٹرمپ والے معاملے کی ہورہی ہے۔ وجہ صاف ہے کہ دنیا میں عزت اور قدر اس کی ہے جسے خود اپنی عزت اور قدر کی پرواہ ہے دونوں ممالک کے سیاسی رویے اور ردعمل میں بھی واضح فرق دیکھا جاسکتا ہےریاستہائے متحدہ امریکا میں ٹرمپ پر حملے کی ریپبلکن اور ڈیموکریٹک دونوں رہنماؤں کی جانب سے فوری اور غیر واضح مذمت کی گئی، اور اسے "سیاسی تشدد کا عمل” قرار دے کر یک زبان ہوکر کہا گیا کہ ‘‘اس ملک میں سیاسی تشدد کے لیے کوئی جگہ نہیں’’۔حملے کے فوراً بعد موجودہ صدر بائیڈن نےالیکشن مہم روک دی۔ٹی وی سےاپنےاشتہارات کو منسوخ کردیا اور سیاسی کشیدگی کو کم کرنے کے لیے عملی مظاہرہ کیا۔امریکی حکومت نے فوراً وفاقی سطح پر تحقیقات کا آغاز کردیا،جو انصاف اور سلامتی کویقینی بنانے کےعزم کی عکاسی کرتا ہے۔دوسری طرف پاکستان میں عمران خان پر حملے کی وزیراعظم شہباز شریف اور صدر زرداری کی جانب سے مذمت کی گئی تھی لیکن حکومت نے ابتدائی طور پر ایف آئی آر درج کرنے میں رکاوٹیں بھی کھڑی کردی تھیں۔ جس سے تحقیقات کے اخلاص پر سوالیہ نشان کھڑا ہو گیا تھا۔ ساتھ ہی پی ٹی آئی اور عمران خان کے مخالفین اور حکومتی جماعت نے خان کے کیس کو مشکوک بنانے کے لیے بیانات دینا شروع کردیے تھے۔ کہا جارہا تھا کہ یہ سب ڈرامہ ہے، کوئی گولی نہیں لگی۔ یہاں پاکستان میں کئی ماہ تک سیاسی اشتعال انگیزی ہوتی رہی تھی۔ پی ٹی آئی کے کارکنوں کو بھڑکانے والے بیانات دیے جارہے تھے، یہاں تک کہ ن لیگ کے ایک رہنما نے گرفتارحملہ آور کے حق میں پریس کانفرنس بھی کی تھی ۔ ٹرمپ کی فائرنگ پر امریکی ردعمل کے برعکس پاکستان میں اس حملے کی کوئی وسیع، دو طرفہ مذمت نہیں کی گئی۔خلاصہ یہ کہ امریکہ نے سیاسی تشدد کی مذمت اور مکمل تحقیقات کو یقینی بنانے کے لیے مضبوط عزم کا مظاہرہ کیا، جبکہ پاکستانی حکومت کے اقدامات سیاسی پوائنٹ اسکورنگ اور کیس کو مشکوک بنانے کے طور پر دیکھا جاسکتا ہے
(ادارے کا مضمون نگارکےخیالات سے متفق ہوناضروری نہیں)