تحریر: انصار مدنی
کل ہم گلی سے گزررہے تھے پیچھے سے آواز آئی بیٹا میری بات سنیے، ہم رک گئے آنے والے بزرگ سےمصافحہ کرنے بعد وہ کہنے لگے کہ ذرا میری بات سنیں گے ہم نے کہاضرورہم آپ کی بات غورسے سنیں گے۔ وہ کہنے لگے کہ کل یوم آزادی ہےجب ہم چھوٹے تھے گھرگھرجشنِ آزادی جوش وخروش سے منایا جاتا تھااسی جوش وجذبے کے تحت ہم نوجوانی کی دہلیز کو چھورہے تھے تو ہمارےوالد نےہمیں حکم دیا کہ آپ ملک کی سرحدوں کی حفاظت کریں گے، میں نے والد صاحب کا حکم مانا اورفوج میں بھرتی ہوااورگلگت بلتستان کےمشکل ترین سرحدوں پرتعینات رہااور دورانِ ملازمت سب سےزیادہ خوشی اس وقت ہوئی جب ہمارے گاؤں کےمرحوم صوبیدار حسن سے منسوب حسن چیک پوسٹ پر تعینات رہا۔ظاہر ہے بہادرلوگوں کے تذکرہ سن کر انسانی جذبات کو تازگی ملتی ہے اور مجھے بتایا گیا کہ اس پوسٹ کو حاصل کرنے کے لیے مرحوم موت کے منہ سے نکلے تھے۔خیر میں ان کی پُرعزم قابلِ رشک زندگی کے کئے واقعات خاموشی سےسنتا رہا پھر نے ان سے پوچھا کہ جب آپ یا آپ جیسے بہادر لوگ ایسے پرخطروادیوں پر ڈیوٹی دے رہے ہوتے تھے تو آپ کس قسم کے جذبات سےمزین ہوتے تھے؟انہوں نےمیری شکل کودیکھا مسکرائے اور کہنے لگے کہ ہم ان پُرخطر وادیوں پر قدم رکھتے ہوئے صرف اور صرف اپننے رب سے یہ وعدہ کرتے تھے اے میرے رب مجھے عزت والی موت سے سرفرازفرما اور ہماری یہ جان امانت ہے ہم آپ کی عطاکردہ جان کو قربان کریں گے تاکہ ہمارے ملک کی رونقیں بحال ہوں، ہم آپ کے پیارے حبیب حضرت محمدﷺ کے چچازاد بھائی مولاعلی شیرخدا علیہ السلام جن کی شجاعت وبہادری کی وجہ سے ہمارے ملکِ عزیز کا سب سے بڑا اعزاز ’’نشانِ حیدر‘‘ یہاں کے بہادروں کو ملتا ہے اس کا اہل بنادے ۔ان پُرخطرلمحات میں ہم اپنے ایمان کی طاقت اور بہترین تربیت کے سہارےسراٹھاکرچلتے تھے، شیروں کی طر ڈھاڑتے تھے، دشمن کے حوصلے پست رکھتے تھے، اور وہاں تعینات ہمارا ہرسپاہی یہ عزم رکھتا تھا کہ ہماری یہ جوانی اگر ملک کی حفاظت کی غرض سے کام آئے تو یہ ہمارے لیے اور ہمارے خاندان کے لیے باعثِ فخرہے۔ظاہر وہ اپنے ماضی کے حسین لمحات کو یاد کرکے آبدیدہ ہوئے تھے اسی لمحے میں نے ان سے پوچھا پھر جب آ پ اس قسم کے جذبات سے مزین ہوکر چھٹیوں پر گھرآتے تھے تو یقیناً اپنے کام سے یہاں مختلف اداروں میں جانا ہوتا ہوگااور کیاکبھی وہاں کی ایک عجیب وغریب مخلوق جن کا پسندیدہ مشغلہ رشوت خوری ، کام چوری کے ساتھ ساتھ نفرت وفساد پھیلانے میں بھی ماہر ہیں انہیں دیکھ کر آپ کے دل پر کیا گزرتی ہے؟یہ سوال سنتے ہی انہوں نے ایک سرد آہ بھری پھر کہنے لگے کہ کاش کب اور کس وقت ہمارے باعزت صاحبِ اختیار اور ملک کے خیرخواہوں لوگوں کو یہ احساس ہوگا کہ ہمیں اس حرام خور مخلوق کے خلاف عملی اقدامات اٹھانے ہوں گے، ہمیں ملک کی حفاظت کے خاطر قربانی دینے والوں کی قدر کرنی چاہیے، ذرا آپ اس بات کا تصور کریں کہ جب ہم ڈیوٹی پر ہوتے ہیں تو ہم اپنی سب سے قیمتی جان کو ملک کی عزت ووقار کی خاطر قربان کرنے کے لیے ہمہ وقت تیار رہتے تھے، ہمارا یہ جذبہ تنخواہ یا مراعات کی وجہ سے پیدا نہیں ہوتا بلکہ بچپن سے ہمیں سکھایا جاتا ہے کہ بیٹا جب کبھی تمہیں قربانی دینے کا موقع ملے تو پیچھے نہیں ہٹنا، ہم مسلمان ہیں شہادت ہماری میراث ہے، ہمیں اس بات پر یقین ہوناچاہیے کہ جب گھرکے چادروچاردیواری پر آنچ آئےتو جان قربان کرکے اس تقدس کو بحال رکھنا ہماری ذمہ داری ہے، جس طرح دینِ اسلام پر قربان ہونے کے لیے نواسہ رسول حضرت امامِ حسین علیہ السلام نے اپنا سب کچھ قربان کیا تھا ہم بھی ان کے ماننے والے ہیں ان کے اسوہ حسنہ پر چلنا ہمارا دینی فریضہ ہے، اور مولاعلی رضا علیہ السلام کے فرمانِ پاک پر عمل کرتے ہوئے ہمیں اپنے وطن کی حفاظت کرنی چاہیے۔پھر کہنےلگے ہاں ہمیں شدید تکلیف ہوتی ہےجب ہم مختلف محکموں میں حرام خوروں کو دیکھتے ہیں، اقرباپروری کرنے والوں کو دیکھتے ہیں، ناحق ظلم وزیادتی کرنے والوں کو دیکھتے ہیں، مسلک وفرقہ کی بنیاد پر نفرت پھیلانے اور ان کی سرپرستی کرنے والے منحوس کرداروں کو دیکھتے ہیں ، ہم روز دُعا کرتے ہیں یا اللہ ہمیں صرف ایک موقع اور دینا کہ ہم اس جذبہ کے تحت جو ہم بیرونی دشمنوں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر اپنے قیمتی اثاثوں کی حفاظت کرنے میں کامیاب ہوچکے ہیں اب ہمیں اتنی زندگی دے کہ ہم ان اندرونی دشمنوں کو بھی ختم کریں جو ملکِ عزیزکے مختلف محکموں میں لاش خورگدھوں کی طرح بیٹھے ہوئے ہیں۔ دن رات حرام خوری ، رشوت خوری میں مشغول ہیں اور پھرہم انشاء اللہ ان حرام خوروں کی سرپرستی کرنے والے تمام منحوس کرداروں کو بھی بے نقاب کریں گے۔یہ لیکچر سننے کے بعد ہمیں بھی یہ احساس ہونے لگا واقعی یہاں کا ہر باسی ملکِ عزیز کی عزت ووقار پر قربان ہونے کا جذبہ رکھتا ہے اور ہم اپنے اردگرد دیکھتے ہیں کہ بعض محکموں کے چندصاحبِ اختیار کس طرح ان اداروں سے وابستہ معصوم لوگوں کے حقوق پامال کرتے ہیں، ان کے جائز مطالبات ماننے کی بجائے انہیں عدالتوں کا دروازہ دیکھاتے ہیں، اقربا پروری اور اپنے ناجائز خواہشات کی تکمیل کے خاطر اداروں کی ساکھ خراب کرتے ہیں۔مگر ان بے لگام افسرِ شاہی سے پوچھنے والا شاید کوئی ایماندار ، فرض شناس آفیسر پیدا نہیں ہوا، یا ایسے آفیسروں کو آگے آنے کے مواقع میسر نہیں ہیں ، بلکہ بعض اوقات ہمیں دیکھائی دیتا ہے کہ ان لوگوں کو تحفظ فراہم کرنے کے لیے کئی اور حرام خور اپنے اختیارات کا ناجائز فائدہ اٹھاتے ہوئے میدان میں اترتے ہیں، الہی یہ ماجرا کیاہے؟وطنِ عزیز کی عزت ووقار کو قائم ودائم رکھنے کے لیے جنہوں نے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا وہ یقیناً عالمِ ارواح سے یہاں کے باعزت اور صاحبِ اختیار لوگوں سے پوچھتے ہوں گے کہ آپ جشنِ آزادی مناتے ہیں کیا آپ کو معلوم ہےکہ آپ کی ناک کے نیچے ہماری قربانیوں کا مذاق اڑایا جاتاہے، ہم فساد فی الارض کو ختم کرنے کے لیے قربان ہوئے مگرآپ کے دائرے اختیار میں ہماری اولادوں کے حقوق سلب ہورہے ہیں، ان کے جائزمطالبات ماننے کے لیے تمہارے پاس وقت نہیں ، انہیں دربدر کی زندگی گزارنے پر مجبور کرنے کےبعد آپ ہماری قربانیوں کاذکرکرتےہو،کیاتمہیں واقعی ہماری قربانیوں کااحساس ہے؟ یا رسم دنیانبھانے کے لیے علامتی طور پر ہماری قربانیوں کا ذکرکرتے ہو؟آئیے ہم جشنِ آزادی منانے کی مبارک باد پیش کرتے ہیں ان لوگوں کو جو ہمارے مقدس شہداکے پاکیزہ خون کا احترام کرتے ہیں، جو اداروں کے اندر معصوم لوگوں کے حقوق کا خیال رکھتے ہیں، انہیں تحفظ دیتے ہیں۔ انہیں عزت ووقار کے ساتھ جینے کے مواقع فراہم کرتے ہیں۔اللہ تعالیٰ ان کی توفیقات میں اضافہ فرمائےانہیں عزت والی زندگی سے سرفراز کرے۔ آمین یا رب العالمین۔