تحریر: انصار مدنی
کل کسی محفل میں کچھ بزرگ بیٹھے ہوئے تھے ، میں اپنی جگہ سے اٹھ کر ان بزرگوں میں سے نسبتاً عمرمیں سب سے بڑے دیکھائی دینے والے بزرگ کے پاس بیٹھ گیا، سلام دُعا کے بعد میں نے پوچھا دادا جی ماشاء اللہ آپ صحت وتندرستی کے ساتھ عمر کے اس حصے میں ہیں جہاں اکثر ماضی کی حسین یادوں سے دل بہلایا جاتاہے، کیا آپ مناسب سمجھتے ہیں کہ ہمیں بھی آپ اپنے حسین ترین یادوں کے کچھ مناظر کا دیدار کرادیں؟میرے اس سوال پر وہ بزرگ حسرت بھری نگاہوں سے مجھے دیکھتے رہے گئے گویا وہ زبانِ حال سے عہدِ حاضر کے ہرحساس شخص سے یہ پوچھ رہے تھے کہ جو کچھ آج میں دیکھ رہاہوں کوئی خواب تو نہیں ہے؟ کیا واقعی میں آپ جیسے مصروف لوگوں سے اپنی دل کی باتیں کرسکتا ہوں؟ کیا آپ میری گفتگو توجہ سے سنیں گے؟ کیا آپ کے جیب میں موبائل نہیں ہے؟ جبکہ اس موبائل کی وجہ سے میرا جنت نظیر گھر جہاں بظاہر تمام رشتے موجود ہیں مگر وہ سب مجھ سے دور ہوچکے ہیں، گھر کا کوئی بھی فرد مجھ سے بات چیت نہیں کرتا، البتہ وقت پر مجھے کھانا پینا ملتاہے، اب تو میری حالت یہ ہوگئی ہے کہ میں گھروالوں کی اس بے رخی کو دیکھ کر روز اپنے لیے موت کی دُعا مانگتاہوں۔کیا وجہ ہے کہ آپ لوگ آج مجھے اتنی اہمیت دے رہے ہیں، مجھے سنا چاہتے ہیں، مجھ سے بات چیت کررہے ہیں، میرے دوستوں کے بارے میں پوچھتے ہیں، کیا آپ لوگ میرے گھروالوں کی طرح مصروف نہیں ہیں؟ کیا آپ کے جیب میں موبائل نہیں ہے؟ کیا آپ اپنے موبائل کو دیکھ کر ہنستے نہیں ہیں؟ جبکہ میں اپنے جنت نظیرگھر میں سب رشتوں کے ہوتے ہوئے تنہا زندگی گزار رہاہوں، میرا بیٹا اپنے موبائل میں، بہو اپنے موبائل میں، پوتا اپنے موبائل میں، پوتی اپنے موبائل میں مگن ہیں وہ اپنے حساب سے خوشگوار زندگی گزارتے ہیں، وہ موبائل سے بولتے ہیں، ہنستے ہیں، مسکراتے ہیں ، جب میں ان کی مسکراہٹ میں اپنی مسکراہٹ، ان کی گفتگو میں اپنی باتیں شامل کرنا چاہوں تو وہ اپنی جگہ بدل دیتے ہیں۔ہاں میرے گھر والے میری آسائشوں کا خیال رکھتے ہیں، بیٹا، بیٹی، پوتا، پوتی، نواسا، نواسی یعنی تمام رشتے موجود ہیں، مگر مجھ سے گفتگو کرنے والا کوئی نہیں ۔ میں بھرے خاندان میں تنہاہوں، اکیلاہوں، کیونکہ میں موبائل استعمال کرنے سے قاصر ہوں۔ خیالات کی دنیامیں غوتہ زن اس بزرگ کی ساکت نگاہوں میں ہلچل پیداکرنے کے لیے میں نے دوسری مرتبہ پوچھ لیا اَبَّاحضور! کیا آپ اپنے بچپن میں ناچتے تھے؟
بزرگ نے سرد آہ بھری پھرکہنے لگے، بیٹے مجھے نہیں معلوم کہ آپ میری باتوں پر یقین کریں گے یا نہیں؟ جب آپ نے پوچھا ہے تو سن لیجئے کہ جب ہم چھوٹے تھے اس وقت ہم کئی مواقعوں پر ناچتے تھےمثلاً
۱۔ سخت سردی کی وجہ سے زمین میں ہم کوئی بھی بیج نہیں بوتے تھے جب زمین نرم پڑ جاتی تھی تو صبح کے وقت بزرگوں میں سے کوئی بزرگ نذرونیاز ، صدقہ وخیرات کی مروجہ رسم کے بعد شام کے وقت بیاک میں محفل سجتی تھی جس میں ہم بزرگوں کی نیابت میں ناچتے تھے۔۲۔ فصل بک کر تیار ہوتی تھی تو اس فصل کی پہلی دعوت یتیموں، مسکینوں، فقیروں کو دی جاتی تھی، پھر خاندان والے جمع ہوتے تھے، اظہار خوشی کے طور پر ہم ناجتے تھے۔۳۔ جب چرواہے جنگل کی طرف مال مویشی لے کرجاتے تھے انہیں گاؤں والے جنگل کے راستے تک پہنچاتے تھے وہاں الوداعی تقریب منعقد ہوتی تھی پھر ہم وہاں ناچتے تھے۔۴۔ جب چرواہے سردیوں کی آمد کے بعد جنگل سے گاؤں کی طرف آتے تھے تو گاؤں والے ان کے استقبال کے لیے اسی جگہ جمع ہوتے تھے جہاں سے وہ چندمہینے پہلے انہیں رخصت کرچکے تھے، پھر ان چرواہوں کی محنت وشجاعت کو سلامِ عقیدت پیش کرنے ہم سب وہاں جمع ہوتے تھے اور ناچتے تھے۔
۵۔ موسمِ سرما میں ہم رسمِ نسالو کی وجہ سے جانورذبح کرتے تھےاور گوشت کا ایک حصہ اپنے مرحومین کوایصالِ ثواب کرنے غرض سے علیحدہ کرتے تھے، پھر اس گوشت کوپکانے کے بعد ضرورت مندوں کو کھلاتے تھے، پھر گاؤں کی سطح پر مختلف تقریبات منعقد ہوتی تھیں جہاں ہم بزرگوں کی سرپرستی میں ناچتے تھے۔۶۔ کوئی راجہ، نمبردار، وزیر، سفیر کسی اور گاؤں سے تشریف لاتاتھاتو اسے خوش آمدید کہتے ہوئے انہیں بیاک میں لایاجاتا تھا وہاں ہم ناچتے تھے۔
۷۔ جب کسی خاندان میں بچے کی پیدائش ہوتی تھی تو ان مخصوص تقریبات میں ہم ناچتے تھے۔۸۔ شادی کی تقریبات میں مخصوص رسوم کی انجام دہی کے موقع پر ہم ناچتے تھے۔اس کے علاوہ بھی کئی ایسے مواقع تھے جہاں ہم ناچنافخر محسوس کرتے تھے، بلکہ شجرہ نسب کو محفوظ رکھنے کے لیے ہم ناچتے تھے۔بزرگ بڑی روانی کے ساتھ ناچنے کے مواقع گنوارہاتھا اچانک ان کے منہ سے یہ جملہ ’’شجرہ نسب کومحفوظ رکھنے کے لیے ہم ناچتے تھے‘‘ سنتے ہی میں نے پوچھ لیا، دادا ابووہ تمام باتیں تو میری سمجھ میں آئیں مگر یہ جملہ مجھ سے ہضم نہیں ہورہاہے، اس کا کیا مطلب؟ کہ آپ ناچ کر اپنا شجرہ نسب کیسے محفوظ رکھتے تھے؟وہ کہنے لگے بیٹا، اس عہدمیں ہربزرگ کے نام سے مخصوص ناچنے کا اسٹائل ہوتاتھا۔ اس بزرگ کے خاندان والے اپنے جدامجد کے انداز میں ناچتے تھے، اپنے بزرگ کے اسٹائل کے علاوہ دوسرے خاندان کے بزرگوں کے اسٹائل میں ناچنا نگ وعار سمجھتے تھے ۔اس لیے دیکھنے والے ناچنے کااسٹائل دیکھ کر معلوم کرلیتے تھے کہ یہ فلاں گاؤں کے فلاں خاندان کا چشم وچراغ ہے، یوں ہرخاندان کے افراد اپنے ناچنے کے انداز سے دوسرے لوگوں کو یہ بتاتے تھے کہ ہم صدیوں سے ان علاقوں میں رہائش پذیر ہیں، اور ہمارے بزرگوں کے یہ کارنامے ہیں اور ان سے مخصوص یہ رسوم ورواج ہیں جن میں سے ایک ناچنا بھی ہے۔ یہی وجہ تھی کہ اس عہد میں کوئی بھی مجہول النسب ہمارے خاندان کا نام استعمال نہیں کرسکتا تھا، جس کی وجہ سے ہم اپنے شجرہ نسب کو محفوظ سمجھتے تھے۔آج کل جب ہم کسی تقریب میں ناچنے والوں کو دیکھتے ہیں اور ان کے ناچنے کے انداز کو دیکھتےہیں تو ہمیں۔شرمندگی ہوتی ہے، اس کی کئی وجوہات میں سے ایک وجہ یہ ہے کہ ناچنے والے کو پتا ہی نہیں ہوتا، کہ وہ کس بزرگ کے اسٹائل میں ناچتاہے؟ناچتے وقت ان کی حرکات وسکنات سے اس فن سے آگاہ لوگ ان کے بارے میں کیا رائے رکھتے ہیں؟ناچنے والاناچتے ہوئےوہ اپنےمخصوص انداز میں دیکھنے والوں کو کوئی پیغام دیتاتھا کیاوہ اس سے آگاہ ہے؟اس کے علاوہ بھی بہت سی باتیں ہیں فرصت کے لمحات میں گفتگو کریں گے فی الحال مجھے کہیں اور تعزیت کے لیے جانا ہے اللہ حافظ۔
جب بزرگ اپنی جگہ سے اٹھنے لگے تو میں بھی احتراماً کھڑے ہوکر انہیں رخصت کیا، واقعی بزرگوں کی صحبت نصیب والوں کو ملتی ہے، بدنصیب ہیں وہ اولاد جو اپنے بزرگوں کی حکمت بھری باتیں سننے سے اپنے موبائل کی وجہ سے محروم ہیں، اور ان کے بڑے بزرگ ان کی بے رخی دیکھ کر اپنے لیے مرنے کی دُعا مانگتے ہیں، جبکہ ان کی اولاد غیروں کے اسٹائل میں دن رات ناچتے رہتے ہیں۔ فاعتبروا یا اولی الابصار۔
تم ناچتے کیوں ہو؟
Date: