تحریر غلام الدین جی ڈی
دہشتگری جس خطے میں بھی ہو، کوٸی ذی شعور شخص حمایت نہیں کرے گا۔ پہلگام کے اندوہناک واقعے کے بعد روایتی حریف بھارت اور پاکستان ایک بار پھر آمنے سامنے آٸے ہیں۔ بھارت نے سندھ طاس معاہدے کی معطلی سمیت تجارت، سفارت نیز ہر طرح کے روابط ختم کرنے کا اعلان کیا ہے۔ پاکستان نے بھی ترکی بہ ترکی جواب دیتے ہوٸے شملہ معاہدہ، ہواٸی راستہ، سفارتی عملے کی کمی کے علاوہ ہر طرح کی جارحیت کا منہ توڑ جواب دینے کا اعلان کیا ہے۔ بھارت میں کچھ ایسی آوازیں موجود ہیں جو پاکستان پر لگاٸے جانے والے الزامات کو غلط قرار دے رہے ہیں۔ مودی نے بہار میں ایک جلسے سے خطاب میں دہشتگروں کا پیچھا کرنے کا وعدہ کیا ہے۔ بھارتی میڈیا پر بعض تجزیہ کاروں نے پاکستان پر آبی جارحیت مسلط کرکے زمینیں بنجر کرانے کی دھمکیاں بھی دی ہیں۔ واٹر راٸٹس کا اطلاق صرف بھارت اور پاکستان پر نہیں بلکہ پوری دنیا میں اپرریپراٸن پر ہوتا ہے تاکہ لوورریپراٸن کے باسیوں کو ان کا فطری حق مل سکے۔ بھارت نے سندھ طاس معاہدے کی معطلی کر کے عالمی قوانین اور معاہدوں کی صریحاً خلاف ورزی کی ہے۔ سندھ طاس معاہدے کا گارنٹر عالمی بینک ہے، معاہدے کی رو سے دونوں ممالک کےپاس معطلی کے فیصلے کا اختیار ہے نہ ہی معاہدے میں کوٸی ایسی شق موجود ہے۔ بین الاقوامی قوانین کے ماہرین کا کہنا ہے کہ اقوام متحدہ کا سیکیورٹی کونسل فوری طور پر بھارتی جارحیت کا نوٹس لے اور عالمی بینک کو بھی جنگی بنیادوں پر مداخلت کرنے کی ضرورت ہے۔ بھارتی سفارتی عملےکو ڈی مارش کرنے کے ساتھ پاکستان کو سفارتی محاذ پر فوری طور پر متحرک ہونے کی ضرورت ہے۔ ایک دلیل یہ بھی دی جارہی ہے کہ اپرریپراٸن پہاڑی سلسلوں پر محیط ہے اس لیے بھارت فوری طور پر کچھ نہیں کرسکتا لیکن معاہدے کی معطلی جیسے غیر قانونی اعلانات سے تناو بڑھ سکتا ہے جو خطے میں امن تباہ کرنے کی ایک کوشش ہے۔ دونوں ملکوں کا ماضی کا تجربہ اچھا نہیں، اور جنگ یا تناو دونوں ملکوں کے حق میں نہیں، ہمیں بھوک، افلاس، وباٸی امراض، جہالت، پسماندگی، معاشی و سماجی پستی، سماجی اونچ نیچ کے خلاف اور انسانی حقوق، آزادی اظہار، دولت کی منصفانہ تقسیم، سماجی، سیاسی و معاشی انصاف کے لیے اپنے اپنے ملکوں میں جنگ لڑنے کی ضرورت ہے۔ دہشتگردی سمیت تمام درینہ مساٸل ڈاٸیلاگ کے ذریعے حل ہونے چاہییں۔ اس حوالے سے ساحر لدھیانوی بہت یاد آٸے۔
خون اپنا ہو یا پرایا ہو
نسل آدم کا خون ہے آخر
جنگ مشرق میں ہو کہ مغرب میں
امن عالم کا خون ہے آخر
بم گھروں پر گریں کہ سرحد پر
روح تعمیر زخم کھاتی ہے
کھیت اپنے جلیں کہ اوروں کے
زیست فاقوں سے تلملاتی ہے
ٹینک آگے بڑھیں کہ پچھے ہٹیں
کوکھ دھرتی کی بانجھ ہوتی ہے
فتح کا جشن ہو کہ ہار کا سوگ
زندگی میتوں پہ روتی ہے
جنگ تو خود ہی ایک مسئلہ ہے
جنگ کیا مسئلوں کا حل دے گی
آگ اور خون آج بخشے گی
بھوک اور احتیاج کل دے گی
اس لئے اے شریف انسانو
جنگ ٹلتی رہے تو بہتر ہے
آپ اور ہم سبھی کے آنگن میں
شمع جلتی رہے تو بہتر ہے
برتری کے ثبوت کی خاطر
خوں بہانا ہی کیا ضروری ہے
گھر کی تاریکیاں مٹانے کو
گھر جلانا ہی کیا ضروری ہے
جنگ کے اور بھی تو میداں ہیں
صرف میدان کشت و خوں ہی نہیں
حاصل زندگی خرد بھی ہے
حاصل زندگی جنوں ہی نہیں
آؤ اس تیرہ بخت دنیا میں
فکر کی روشنی کو عام کریں
امن کو جن سے تقویت پہنچے
ایسی جنگوں کا اہتمام کریں
جنگ وحشت سے بربریت سے
امن تہذیب و ارتقا کے لئے
جنگ مرگ آفریں سیاست سے
امن انسان کی بقا کے لیے
جنگ افلاس اور غلامی سے
امن بہتر نظام کی خاطر
جنگ بھٹکی ہوئی قیادت سے
امن بے بس عوام کی خاطر
جنگ سرمائے کے تسلط سے
امن جمہور کی خوشی کے لیے
جنگ جنگوں کے فلسفے کے خلاف
امن پر امن زندگی کے لیے
جنگ ٹلتی رہے تو بہتر ہے
Date: