پاکستان مین افغان مہاجرین کا مسئلہ،جلد واپسی ضروری ہے

Date:

تحریر عارف کاظمی

پاکستان میں افغان مہاجرین کی آمد، ان کی طویل موجودگی، اور اب ان کی واپسی کا عمل۔ یہ کہانی صرف سرحد پار ہجرت کی نہیں، بلکہ جنگ، سیاست، انسانیت، اور وقت کے بدلتے فیصلوں کی ہے۔ جس کے نتیجے میں پاکستان کو کم و بیش چالیس سال تک افغان مہاجرین کی میزبانی کرنا پڑی،تو چلیے،وقت کا پہیہ پیچھے گھماتے ہیں، سن انیس سو اناسی کی طرف،،سال انیس سو اناسی میں سوویت یونین نے افغانستان پر حملہ کیا،جس کے نتیجے میں افغان جہاد کا آغاز ہوا،جنگ کی تباہ کارویوں سے بچنے کیلئے لاکھوں افغان شہریوں نے پاکستان کا رخ کرلیا، حکومت پاکستان نےبھی کھلے دل سےاپنےافغان بھائیوں کا خیرمقدم کیا۔انیس سو اسی کی دہائی تک تقریباً تیس لاکھ سے زائد مہاجرین پاکستان میں داخل ہو چکے تھے، جنہیں زیادہ تر خیبر پختونخوا اور بلوچستان کے علاقوں میں قائم کیمپوں میں بسایا گیا۔کچھ مہاجرین شہروں میں بھی آباد ہوگئے ،اس دوران پاکستان، اقوامِ متحدہ اور مختلف این جی اوز نے ان مہاجرین کی دیکھ بھال کے لیے اہم کردار ادا کیا۔تاہم انیس سو نواسی میں سوویت یونین کو افغانستان مین شکست کا سامنا کرنا پڑا اورافغانستان سے واپسی کا اعلان کیا۔یہ امن کا آغاز تھا لیکن مکمل سکون نہیں۔ بہت سے افغان واپس گئے، مگر افغانستان مکمل طور پر محفوظ نہیں تھا، اس لیے لاکھوں مہاجرین پاکستان ہی میں مقیم رہے۔یو این ایچ سی آر کے تحت رضا کارانہ واپسی کے کئی پروگرام شروع کئے گئے جس کے نتیجے میں تقریبا پندرہ لاکھ مہاجرین واپس افغانستان لوٹ گئےکچھ عرصے بعد افغان سول وار کا آغاز ہوا، وار لارڈز نے ایک دوسرے کے خلاف قتل و غارت گری کا بازار گرم کیا، جس کے نتیجے میں ایک بار پھر افغان مہاجرین کی آمد کا سلسلہ شروع ہوا۔انیس سو چھیانوے میں افغانستان میں طالبان کی حکومت بنی، لیکن افغانستان میں بدامنی اور اقلیتوں پر مظالم کی خبریں دوبارہ مہاجرین کی آمد کا سبب بنیں۔دوہزار ایک تک افغان مہاجرین کی تعداد ایک بار پھر پچیس لاکھ سے زائد ہو گئی تھی۔تاہم نائن الیون واققعے کے بعد امریکا نے افغانستان میں کارروائی کا آغاز کیا۔ طالبان حکومت کا خاتمہ ہوا، مگر بدامنی، بم دھماکوں اور خانہ جنگی نے ایک اور مہاجر بحران کو جنم دیا۔دوہزار ایک سے دوہزار چودہ کے درمیان مزید دس لاکھ سے زائد افغان پاکستان میں داخل ہوئے۔ پاکستان میں افغان مہاجرین کی کل تعداد پینتیس لاکھ کے قریب ہو گئیسال دوہزار چھ میں پاکستان نے افغان مہاجرین کو رجسٹرڈ کرنے کے لیے ‘پروف آف رجسٹریشن کارڈ’ متعارف کرایا۔یو این ایچ سی آراور نادرا کے تعاون سے لاکھوں افغان شہریوں کو شناختی کارڈز فراہم کئے گئے۔مگر پھر بھی، تقریباً آٹھ لاکھ افراد بغیر کسی قانونی حیثیت کے ملک میں مقیم رہے۔دوہزار سولہ میں خیبر پختونخوا میں سیکیورٹی صورتحال بگڑنے لگی، اور افغان مہاجرین کی واپسی پر زور بڑھنے لگا۔حکومت پاکستان نے مہاجرین کی رضا کارانہ واپسی کے لیے متعدد ڈیڈ لائنز دیں، مگر افغان مہاجرین کی واپسی اس تیزی کے ساتھ نہ ہوسکی جس کی امید کی جا رہی تھی جس کے نتیجے میں بار بار ڈیڈ لائنز کو آگے بھی بڑھایا گیا۔کابل سے دوہزار اکیس میں امریکی فوجیوں کے انخلاء سے دو عشروں پر محیط جنگ کا خاتمہ ہوا لیکن ایک نیا خروج شروع ہو گیا کیونکہ افغان باشندے طالبان حکومت کی پابندیوں اور واشنگٹن اور اس کے اتحادیوں کے ساتھ کام کرنے پر انتقامی کارروائی کے خوف سے ملک چھوڑ دینا چاہتے تھے۔ ہزاروں افغان جنہوں نے امریکا اور یورپی ممالک میں آبادکاری کے لیے درخواستیں دی ہوئی تھیں،ان سب نے پاکستان کا رخ کیا یوں کابل سے امریکی انخلا کے بعد سات لاکھ مہاجرین کا اضافہ ہوا۔ان میں ایک بڑی تعداد سابق افغان فوجی، انٹیلی جینس اداروں کے اہلکار، سابق ارکانِ پارلیمنٹ اور صحافیوں کی شامل تھی،ان میں سے ہزاروں افراد مغربی ممالک میں منتقل ہو گئے ہیں جب کہ ہزاروں افراد اب بھی امریکا اور دیگر ممالک جانے کے انتظار میں ہیں۔دوہزار تئیس میں پاکستان نے غیر رجسٹرڈ افغان مہاجرین کی واپسی کا اعلان کیا، جس پر مختلف بین الاقوامی اداروں نے تحفظات کا اظہاربھی کیا۔پاکستان میں رہنے والے افغان شہریوں کی واپسی کا سلسلہ ستمبر دوہزار تئیس میں شروع ہوا تھا اور پندرہ دسمبر دوہزار چوبیس تک ان میں سے سات لاکھ پچانوے ہزار چھ سو سات اپنے وطن واپس لوٹ چکے ہیں۔حکومتی اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں اس وقت بھی 30 لاکھ کے قریب افغان مہاجرین مقیم ہیں۔

عالمی اداروں کے مطابق ان میں سے تقریباً ساڑھے 13 لاکھ رجسٹرڈ ہیں، جبکہ ساڑھے آٹھ لاکھ کے پاس افغان سیٹیزن کارڈز موجود ہیں۔ دس لاکھ سے زائد افراد بغیر کسی قانونی دستاویز کے رہائش پذیر ہیں۔حکومت پاکستان کی جانب سے اکتیس مارچ کوغیر قانونی مقیم اور افغان سٹیزن کارڈ ہولڈرز کو پاکستان چھوڑنے کی ڈیڈلائن ختم ہونے کے بعد انخلا ،جاری ہےروزانہ 200 کے قریب افغان مہاجرین پاک-افغان سرحد طورخم کے راستے واپس جا رہے ہیں۔پاکستان چھوڑنے والے افغان باشندوں کی تعداد 9 لاکھ 21 ہزار 63 تک پہنچ گئی۔دوہزار چھ سات میں جو افراد رجسٹر ہوئے ان کے پاس پی او آر کارڈ یعنی پروف آف رجسٹریشن کارڈ موجود ہیں۔ ان کو جون تک کی مہلت دی گئی ہے۔ ان کی تعداد 13لاکھ کے قریب ہے۔وزارت داخلہ کے مطابق افغان سیٹیزن کارڈ ہولڈرز کو وہ سہولیات حاصل نہیں جو پروف آف رجسٹریشن کارڈ والے کو حاصل ہیں۔وزارت داخلہ کے مطابق جو افغان شہری افغانستان سے امریکی انخلا اور طالبان حکومت آنے کے بعد پاکستان آئے تھے اور وہ کسی تیسرے ملک میں جانا چاہتے ہیں ان کی بھی پاکستان میں قیام کی مدت 30 جون تک ہے۔تاہم حکومت کا کہنا ہے کہ اگر ان کے کسی بیرون ملک جانے کے لیے کاغذات میں تاخیر ہوتی ہیں تو انھیں 30 ستمبر تک ملک میں رہنے کی اجازت دی جائے گی۔پاکستان نے چالیس سال سے زیادہ عرصے تک لاکھوں افغان مہاجرین کو پناہ دی ٓاور ان کی شاندار میزبانی کی جو کہ ایک تاریخی حقیقت ہے۔مگر وقت کے ساتھ ساتھ ضروری ہے کہ افغان حکومت اور عالمی ادارے اس حوالے پائیدار حل تلاش کریں تاکہ افغان مہاجرین باعزت طریقے سے اپنے ملک واپس جا سکیں

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here

Share post:

Subscribe

spot_imgspot_img

Popular

More like this
Related

بانی پی ٹی آئی کا ضمنی انتخابات کے بائیکاٹ کا اعلان

سابق وزیر اعظم عمران خان نے تحریک انصاف کے...

ڈیجیٹل تبدیلی اور ٹیکنالوجی کا ارتقاء

تحریر عارف کاظمی ایک وقت تھا، جب علم کی روشنی...