تحریر عارف کاظمی
ایک وقت تھا، جب علم کی روشنی صرف ان لوگوں تک پہنچتی تھی جو اسکول جا سکتے تھے۔ مگر اب ایک کلک، اور دنیا آپ کے ہاتھ میں۔یہ ہے دورِ جدید، یعنی ڈیجیٹل تبدیلی کا دور، جہاں خیالات کی رفتار روشنی سے بھی تیز ہو چکی ہےانیس سو نوے کی دہائی، جب پاکستان میں انٹرنیٹ کا پہلا بیج بویا گیا، کسی نےیہ تصوربھی نہ کیاہوگاکہ ہمارے ہاتھ میں موجود موبائل ایک کلک پر ہمارے کتنے کام کرسکتا ہے، یعنی لمحوں میں دنیا ہمارے سامنے لاکھڑا کرسکتا ہے۔اسی نوے کی دہائی میں ہی ہم یہ سوچ بھی نہیں سکتے تھے کہ آنےوالے وقت میں ہم موبائل بینکنگ،ای لرننگ،اورورچوئل دفاتر کا خواب حقیقت بنتے دیکھ سکیں گے۔آج ہم جس دنیا میں جی رہے ہیں، وہ مکمل طور پر ایک "ڈیجیٹل دنیا” بنتی جا رہی ہے جہاں تعلیم، معیشت، صحت، تعلقات اور حتیٰ کہ تفریح بھی ایک کلک کی دوری پر ہے۔المختصرڈیجیٹل انقلاب ایک خاموش طوفان کی مانند آیا ، جو ہمارے رہن سہن، کام کرنے، سیکھنے اور حتیٰ کہ محبت کرنے کے انداز تک کو بدل گیا۔یعنی ہم کہہ سکتے ہیں کہ ٹیکنالوجی معاشی و پیشہ وارانہ ترقی میں بھی معاون ثابت ہو رہی ہے۔ ڈیجیٹلائزیشن کا موجودہ انقلاب حکومتوں، معاشروں، کاروباری اداروں اور افراد کے درمیان تعلقات کو نئے سرے سے متعین کررہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج ٹیکنالوجی کو ترقی اور خوشحالی کا اہم ذریعہ سمجھا جاتا ہے، وہ افراد، ادارے اور ممالک جنھوں نے ڈیجیٹل تبدیلی کے مطابق خود کو ڈھالا، وہ ترقی کے سفر پر تیزی سے گامزن ہیں۔پاکستان میں اب لاکھوں نوجوان فری لانسرز کی حیثیت سے عالمی معیشت کا حصہ بن چکے ہیں۔ خواتین گھروں سے کاروبار چلا رہی ہیں۔ ڈیجیٹل مارکیٹنگ کے ذریعے لاکھوں نوجوان گھر بیٹھے روزگار حاصل کر رہے ہیں۔ جبکہ چھوٹے کاروبار سوشل میڈیا اور ویب سائٹس کے ذریعے عالمی سطح پر اپنی مصنوعات بیچنے لگے ہیں۔یہ بات ایک تازہ غیر سرکاری رپورٹ میں سامنے آئی ہے کہ پاکستان خود کو تیزی سے ڈیجیٹل خطوط پر استوار کرنے کے لحاظ سے دنیا کے دو سو ممالک کی فہرست میں اب پہلے دس ملکوں میں شمار ہونے لگا ہے،پاکستان میں بھی مختلف شعبے جیسے بینکنگ، ایجوکیشن، ہیلتھ کیئر اور حکومتی ادارے ڈیجیٹل ٹرانسفارمیشن کی جانب بڑھ رہے ہیں۔ موبائل بینکنگ، آن لائن تعلیم اور ٹیلی میڈیسن اس کی چند مثالیں ہیں۔ حکومت اور نجی ادارے اگر مل کر ڈیجیٹل تبدیلی کو فروغ دیں تو بہت جلد پاکستان میں بھی معاشی و اقتصادی انقلاب برپا کیا جاسکتا ہے۔
ڈیجیٹل تبدیلی اب محض ایک فیشن ایبل رجحان نہیں ہے، بلکہ جدید دنیا میں کامیابی کے خواہاں اداروں اور افراد کے لیے ایک فوری ضرورت ہے۔ جس سے کام کرنے اور صارفین کے ساتھ رابطہ کے طریقوں میں بنیادی تبدیلی آتی ہے۔ چھوٹے کاروباروں سے لے کر بڑے کارپوریشنوں تک، ہر کوئی ڈیجیٹل انقلاب کے اثرات کو محسوس کر رہا ہے۔ اگرچہ ڈیجیٹلائزیشن روایتی طور پر آئی ٹی، فنانس اور ریٹیل جیسے شعبوں سے وابستہ ہے، لیکن اس کا اثر زراعت اور یہاں تک کہ تفریحی شعبے سمیت تمام صنعتوں میں سرایت کر رہا ہے۔ڈیجیٹل تبدیلی کے اس دور میں اب آئی ٹی کمپنیاں صنعتوں کو بتاتی ہیں کہ دنیا میں آپ کی انڈسٹری کس طرح کام کر رہی ہے اور آپ کو ان سے مسابقت کے لیے کیا طریقہ کار اپنانا چاہیے۔
ڈیجیٹل ٹیکنالوجی اداروں کو کاروباری ماڈل میں جدت اور صنعتی ماحولیات کی تعمیر نو میں مدد فراہم کرتی ہے۔ روایتی مینوفیکچرنگ اور زراعت کے شعبے میں ڈیجیٹل تبدیلی کو تیز کر کے معاشی ترقی کی رفتار بڑھائی جاسکتی ہے اور موجودہ نظام کو نئے سرے سے تشکیل دیا جاسکتا ہے، جس میں کاروباری عمل کو شفاف بنانے کے ساتھ ساتھ مارکیٹ کی ضروریات کے مطابق خدمات فراہم کی جاسکتی ہیں۔بہت سے افراد اور ادارے وقت پر فیصلہ نہ کرنے کی وجہ سے پیچھے رہ جاتے ہیں، جب کہ بروقت فیصلہ کرنے کی صلاحیت کو کامیابی کی ضمانت سمجھا جاتا ہے اور ٹیکنالوجی ہمیں یہ صلاحیت فراہم کرتی ہے۔ ٹیکنالوجی کے استعمال سے ڈیٹا تک فوری رسائی ہوتی ہے، جس سے وقت اور سرمایہ کی بچت کے ساتھ ساتھ ۔درست فیصلے کرنے میں بھی مدد ملتی ہے
ڈیجیٹل ٹرانسفارمیشن کسی آسائش یا شارٹ کٹ کا نام نہیں بلکہ یہ کام کی رفتار کو تیز، محفوظ اور معیارکو بہتر بناتا ہے۔ اس کے لیے آپ کی سوچ، مقصد اور مستقبل کے منصوبوں کا ہم آہنگ ہونا انتہائی ضروری ہے۔دوسری طرف ٹیکنالوجی نےجہاں سہولت دی ہیں ،وہیں نئے سوالات بھی جنم لیے ہیں کہ کیا سب کو اس تبدیلی تک رسائی ہے؟ کیا ہم نئی دنیا میں پرانی اقدار بچا سکتے ہیں؟تو اس کا جواب یہ ہے کہ نہیں، سب کو یکساں رسائی حاصل نہیں ہے۔ دراصل ڈیجیٹل تقسیم سے مراد وہ فاصلہ ہے جو ان افراد، طبقوں یا علاقوں کے درمیان پایا جاتا ہے جنہیں ٹیکنالوجی، انٹرنیٹ یا ڈیجیٹل سہولیات تک رسائی حاصل ہے اور وہ جو ان سے محروم ہیں۔اگر ہم پاکستان ہی کی مثال دیں تو پاکستان مین بھی شہری علاقوں میں انٹرنیٹ، موبائل، اور آن لائن تعلیم عام ہو رہی ہے۔ جبکہ دیہی علاقے آج بھی کمزور نیٹ ورک، بجلی کے مسائل، اور ڈیجیٹل نابلدی، سائبر سکیورٹی جیسے مسائل کا شکار ہیں۔ خواتین، بزرگ، اور معذور افراد جیسے طبقات میں ڈیجیٹل تبدیلی تک رسائی مزید محدود ہے۔معاشی اعتبار سے کمزور طبقے بھی موبائل فون، کمپیوٹرز، یا ڈیٹا پیکج تک رسائی نہیں رکھتے۔لیکن یہ تمام مسائل ناقابل عبور نہیں،اگر ریاست، نجی شعبہ، اور عوام مل کر قدم بڑھائیں، تو ہم سب کو اس انقلاب کا برابر کا حصہ بنا سکتے ہیںخاص طورپراس مقصد کے حصول کیلئے ڈیجیٹل لیٹریسی کو دیہی علاقوں تک وسعت دی جاسکتی ہے، سستے اسمارٹ فونز، مفت انٹرنیٹ زونز، اور مقامی زبان میں مواد کی تیاری بھی اس مقصد کے حصول میں اہم کردار ادا کرسکے ہیںکیا ہم نئی دنیا میں پرانے اقدار بچا سکتے ہیں تو اس سوال کا جواب بھی ہاں میں ہے اس کیلئے ہمیں جاننا پڑے گا کہ پرانے اقدار آخر ہیں کیا تو ادب و احترام، خاندانی نظام،سچائی، صبر، خدمت،دینی اقدار، اخلاقی اور تہذیبی روایات سب ایک مہذب معاشرے کے اقدار ہیں لیکن ان اقدار کو آج ڈیجیٹل تبدیلی کے دور میں سوشل میڈیا پر جھوٹ، گمراہی، اور فحاشی کا پھیلاؤ جیسے خطرات کا سامنا ہے لیکن اگر ہم شعور کے ساتھ ٹیکنالوجی کو اپنائیں تو ان مسائل سے چھٹارہ ممکن ہے
آج ڈیجیٹل تبدیلی نے مواقع کی کھڑکیاں کھول دیں ہیں جن سے شعور کی آنکھوں کے ساتھ جھانکےاوراحتیاط والے راستوں پر چلتے ہوئے اپنی زبدگیوں میں بڑی تبدیلی لاسکتے ہیںٹیکنالوجی کوئی دشمن نہیں، اگر ہم اسے اپنے فائدے کے لیے استعمال کرنا سیکھ لیں۔ یہ ایک سفر ہے،،روشنی کی طرف۔جہاں ہر شخص، چاہے وہ کسی بھی کونے میں ہو، اس تبدیلی کا حصہ بن سکتا ہے، کیونکہ علم، ترقی اور خواب،،، اب سب کے لیے ہیں۔ ڈیجیٹل تبدیلی… ایک امکان، ایک انقلاب،اور ایک نئی صبح کا پیغام ہے کیا آپ تیار ہیں اس سفر کے لیے؟