سیون سسٹرز:بھارت سے آزادی کی جنگ جاری

Date:

تحریر عارف کاظمی
بھارت کی سیون سسٹرز ریاستیں،بھارت کی مرکزیت کیلئے ایک بڑا چیلنج بن گئیں،شمال مشرقی علاقوں پر مشتمل سات اہم ترین ریاستوں جن کو سیون سسٹرز ریاستیںبھی کہا جاتا ہے میں علیحدگی پسند تحریکوں نے شدت اختیار کرلی ہے۔ایک ساتھ سات ریاستوں میں علیحدگی پسند تحریکوں کا زور پکڑنا بھارت کیلئے ایک ایسا مسئلہ بن چکا ہے جس نے ریاستی مشینری کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔پاکستان سمیت ہمسایہ ممالک میں علیحدگی پسندی اور افراتفری کو فروغ دینے میں پیش پیش بھارتی حکومت کو خود اپنی استحکام اور سالمیت کے لالے پڑ گئے،آسام، تریپورہ، میزورام، میگھالیہ، منی پور، ناگالینڈ، اور میزورام سب ایک جنگی حالت میں ہیں، جہاں علیحدگی پسند گروہ بھارتی فوج کے لیے ایک مشکل چیلنج بنے ہوئے ہیں،بھارتی میڈیا کے مطابق صرف آسام میں ہی 34 باغی تنظیمیں کام کر رہی ہیں، جو ملک کے 162 اضلاع پر مکمل کنٹرول رکھتی ہیں۔ جن میں یونائیٹڈ لبریشن فرنٹ، نیشنل ڈیمو کریٹک فرنٹ، کے ماتا پور لبریشن آرگنائزیشن، برچھا کمانڈو فورس، یونائیٹڈ لبریشن ملیشیا، مسلم ٹائیگرز، آدم سینا، حرکت المجاہدین، حرکت الجہاد، گورکھا ٹائیگر فورس، پیپلز یونائیٹڈ لبریشن فرنٹ سرفہرست ہیں۔ دوسری جانب ایسی ہی تحریکیں ناگالینڈ، منی پو ر اور تری پورہ میں بھی جاری ہیں۔ناگا لینڈ میں نیشنل سوشلسٹ کونسل سب سے زیادہ موثر ہے،

جب کہ منی پور میں پیپلز لبریشن آرمی، منی پور لبریشن ٹائیگرز فورس، نیشنل ایسٹ مائنارٹی فرنٹ، کوکی نیشنل آرمی اور کوکی ڈیفنس آرمی بھارت سے آزادی کی جدوجہد میں مصروف عمل ہیں۔ اسی طرح تری پورہ میں آل تری پورہ ٹائیگر فورس، تری پورہ آرمڈ ٹرائبل فورس، تری پورہ مکتی کمانڈوز اور بنگالی رجمنٹ جدوجہد کر رہی ہیں۔ جبکہ ریاست میزورام میں پروفیشنل لبریشن فرنٹ علیحدگی کی تحریک کو آگے بڑھا رہی ہے۔ان ریاستوں کی ثقافتی،لسانی اور تہذیبی بنیادیں کیا ہیں؟ یہ ریاستیں کس آئینی ڈھانچے کے تحت بھارت کے ساتھ جڑی ہوئی ہیں؟ان ریاستوں میں آزادی کی تحریکیں کب اور کیوں شروع ہوئیں؟ ان تحریکوں کے پیچھے کون لوگ یا ممالک ہیں؟ اب یہ تحریکیں کس حال میں ہیں؟آنے والے دور میں ان تحریکوں کا کیا انجام نظر آ رہا ہے؟اوربھارت کی مرکزی حکومت کا کیا کردار اور موقف ہے؟ ان سوالوں کا جواب یہ ہے کہ یہ ریاستیں نہ صرف بھارت کے باقی حصے سے جغرافیائی طور پر الگ ہیں اوربین الاقوامی سطح پر بھوٹان، چین اور میانمار کے ساتھ جڑی ہوئی ہیں۔بلکہ ان کی اپنی ثقافت، زبان اور تہذیب ہے، جو بھارت کی مرکزی حکومت سے متصادم ہیں


مگر اس سب کے باوجود، یہ ریاستیں آج بھی بھارت کے زیر انتظام ہیں، گوکہ ان ریاستوں میں آزادی کی تحریکیں بڑے عرصے سے جاری ہیں لیکن ان دنوں میں ان تحریکوں میں شدت آگئی ہے، تقریبا تمام ریاستوں کی عوام سڑکوں پر ہے اور نوجوان مورچوں پر جو مرکزی ریاستی افواج کے خلاف آزادی کی جنگ لڑ رہے ہیں اور آئے دن اس جنگ کی شدت میں غیر معمولی طورپر اضافہ ہورہا ہے،جہاں ایک طرف بھارت کا داخلی بحران اس ریاست کی سالمیت کیلئےسب سے بڑا خطرہ بن چکا ہے۔ کیونکہ بھارت اس وقت دنیا کے غیر محفوظ ترین ممالک میں سے ایک بن چکا ہےجہاں دہشت گردی، عسکریت پسندی اور ریاستی جبر کی جڑیں گہری ہو چکی ہیں، جہاں اقلیتیں اپنے حقوق کے لئے لڑ رہی ہیں، اور جہاں فوج ان آوازوں کو دبا دینے کے لیے ظلم و جبر کے تمام حربے استعمال کر رہی ہے وہاں ملکی سرحدوں کے اندر سے آزادی کی آوازیں بلند ہونے سے ریاستی سالمیت کیلئے خطرات دو چند ہوگئے ہیں
یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ آخر کا آزادی کی جنگ لڑنے والی یہ ریاستیں کس آئینی ڈھانچے کے تحت بھارت کے ساتھ جڑی ہوئی ہیں؟تو جواب یہ ہے کہ ان ریاستوں کا بھارت کے ساتھ تعلق ایک پیچیدہ سیاسی تاریخ کا حامل ہے، اور اس کی جڑیں برطانوی راج سے نکلتی ہیں۔

بھارت کی آزادی کے فوراً بعد ان ریاستوں کو بھارت میں ضم کیا گیا،لیکن یہ ضم کرنے کا عمل تنازعہ سے خالی نہیں تھا۔ ان ریاستوں کی اپنی زبان، ثقافت، مذہب اور طرزِ معاشرت بھارت کی مرکزی دھارے سے بہت مختلف تھے۔ جب بھارت نے آزادی حاصل کی توان ریاستوں کا انضمام بھارت کے مرکزی آئین کے تحت نہیں ہوا تھا بلکہ ان ریاستوں کوضم کرنے کے لیے بھارتی حکومت نے باقاعدہ فوجی طاقت کا سہارا لیا۔اوران ریاستوں کی قومی شناخت اور ان کی سیاسی آزادی کی تڑپ کو نظر انداز کر دیا گیا، جس کے نتیجے میں مختلف تحریکیں ابھرنے لگیں۔یہ آزادی کی تحریکیں کب اور کیوں شروع ہوئیں؟ تو دوستو ان تحریکوں کی جڑیں ان ریاستوں کی سیاسی اور سماجی حقیقتوں میں پوشیدہ ہیں۔ سب سے پہلے آسام میں ان تحریکوں کا آغاز ہوا۔ 1950 کی دہائی میں آسام میں زبردست عدم اطمینان پیدا ہوا جب بھارت کی مرکزی حکومت نے یہاں کے وسائل پر قبضہ کیا اور مقامی لوگوں کو احساس ہوا کہ ان کے حقوق نظرانداز کیے جا رہے ہیں۔ آسام میں کسانوں کی بے چینی اور زمینوں کی ملکیت کے مسائل نے علیحدگی کی تحریکوں کو جنم دیا۔اسی دوران، تریپورہ اور میزورام میں بھی علیحدگی پسند تحریکیں اُبھریں، جہاں مقامی لوگ بھارتی حکومتی پالیسیوں کیخلاف سراپا احتجاج بنے۔ ناگالینڈ میں، 1950 کی دہائی کے دوران نیشنل سوشلسٹ کونسل آف ناگالینڈ کی قیادت میں ایک علیحدگی پسند تحریک نے جنم لیا۔ اس تحریک کا مقصد ایک آزاد ناگالینڈ کی تشکیل تھا۔ ان تمام تحریکوں کا بنیادی مسئلہ یہی تھا کہ ان ریاستوں کے لوگ اپنے ثقافتی، سماجی اور سیاسی حقوق کا تحفظ چاہتے تھے، اور بھارت کی مرکزی حکومت کے حکومتی نظام اور اس کے فیصلوں میں ان کی آواز کو نظرانداز کیا جا رہا تھا۔


اب سوال یہ ہے کہ یہ تحریکیں آج کس حال میں ہیں؟ توآج بھی سیون سسٹرز میں روز بروز آزادی کی تحریکوں کی شدت بڑھ رہی ہے۔ آسام میں مختلف علیحدگی پسند گروہ سرگرم ہیں، جن میں سب سے بڑی تنظیم یونائیٹڈ لبریشن فرنٹ آف آسام ہے، جو بھارت سے آزادی اور خودمختاری کی خواہش رکھتی ہے۔ میزورام میں پروفیشنل لبریشن فرنٹ اور ناگالینڈ میں نیشنل سوشلسٹ کونسل آف ناگالینڈ اب بھی بھارت سے علیحدگی کے لئے سرگرم ہیں۔روزانہ کی بنیاد پر بڑے عوامی مظاہرے اور مارچز ہورہے ہیں اورجنگجوؤں کی جانب سے بھارتی افواج پر گھات لگا کر حملے معمول ہیں جو کہ اب بھارتی سرکاری کی بس سے باہر ہوتے ہوئے دکھائی دے رہے ہیںدفاعی ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر بھارت کی حکومت نے ان ریاستوں کی ثقافتی اور سیاسی اہمیت کو تسلیم نہیں کیا تو یہ تحریکیں مزید شدت اختیار کر سکتی ہیں۔ دوسری طرف عالمی سطح پر ان تحریکوں کی حمایت بھی بڑھتی جا رہی ہے، اور مختلف ممالک میں ان تحریکوں کو ایک آزادی کی جدوجہد کے طور پر دیکھا جا رہا ہے،بھارتی حکومت چین پاکستان سمیت چند ہمسایہ ممالک پر ان تحریکوں کو ہوا دینے کا الزام عائد کر رہی ہےخاص طورپر چین اور میانمار پر یہ الزام لگایا جاتا ہے کہ یہ ممالک بھارت کو اس کے شمال مشرقی خطے میں سیاسی اور فوجی طور پر کمزورکرنے کیلئے ان تحریکوں کو ہوا دے رہے ہیں،جبکہ درحقیقت زیادہ تر علیحدگی پسند تحریکوں کی قیادت مقامی سیاسی گروپوں اور قوم پرست رہنماؤں کے ہاتھ میں ہے، جنہوں نے بھارت کے مرکزی حکومت کےظالمانہ فیصلوں کے خلاف آواز اٹھائی ہے۔ادھربھارت کی مرکزی حکومت جہاں ہمسایہ ممالک پر الزامات دھر رہی ہے وہاں خود مرکزی حکومت نے ہمیشہ ان علیحدگی پسند تحریکوں کو دہشت گردی اور قانون شکنی قرار دیا ہے۔ بھارتی فوج ان تحریکوں کے خلاف سخت کارروائیاں کر رہی ہے، اور مختلف علیحدگی پسند رہنماؤں کو گرفتار یا ہلاک کیا جارہا ہے۔ بھارت کا موقف ہے کہ یہ تحریکیں قومی یکجہتی اور سالمیت کے لیے ایک خطرہ ہیں، اور ان کو کچلنا ضروری ہے تاہم، بھارت کے اس موقف کے باوجود، ان ریاستوں میں علیحدگی کی خواہش بڑھتی جا رہی ہے۔ مقامی لوگ بھارت کے مرکزی حکومتی نظام سے مزید علیحدہ ہونے کی آرزو رکھتے ہیں، اور وہ ایک ایسا مستقبل چاہتے ہیں جس میں ان کی ثقافت، زبان اور مسائل کو مرکزی سطح پر تسلیم کیا جائے۔بھارت کی مرکزی حکومت خالصتان کی آزادی کی تحریک سے بھی نمٹنے کی کوشش کر رہی ہے جبکہ بہار، جھاڑ کھنڈ، چھتیس گڑھ، مغربی بنگال، اڑیسہ، مدھیا پردیش، مہاراشٹر اور آندھرا پردیش میں بھی علیحدگی پسند گروپ سرگرم عمل ہیں، ایسے میں سیون سسٹرزمیں بڑھتی ہوئی علیحدگی پسندی مرکزی حکومت کے دم پر پاؤں رکھنے کے مترادف ہے۔آنے والے دنوں میں سیون سسٹرزریاستوں کی آزادی کی تحریکوں کا انجام انتہائی اہمیت کا حامل ہو گا۔ یہ تحریکیں ان ریاستوں کی ثقافتی، معاشرتی اور مذہبی شناخت کے تحفظ کی لڑائی ہیں۔

اگر بھارت کی حکومت نے ان تحریکوں کوزور بازو سے دبانے کی کوشش کی تو ان کی شدت میں مزید اضافہ ہو گا، اور یہ بھارت کی جغرافیائی اور سیاسی یکجہتی کے لیے ایک سنگین چیلنج بن جائیں گے،دوسری جانب ہندو انتہا پسند تنظیموں نے بھی بھارت میں تربیتی کیمپ کھول رکھے ہیں۔ شیوسینا، راشٹر یہ سیوک سنگھ اور بجرنگ دل کے مظالم اور اقلیتوں کے ساتھ امتیازی سلوک کی وجہ سے ہی حریت اور علیحدگی پسندی کو تقویت ملی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بھارت کی مقبوضہ اور حقوق سے محروم ریاستوں میں مظلوم اقلیتوں نے علیحدگی اور آزادی کی راہ چن کر منزل کی جانب سفر جاری و ساری رکھا ہوا ہے۔
سیون سسٹرز کی یہ کہانی ایک جھرمٹ میں چھپے ستاروں کی طرح ہے، جو اپنی شناخت اور آزادی کے لیے روشن ہیں۔ یہ وہ سفر ہے جو صرف سرحدوں کی حدود نہیں جانتا، بلکہ انسانیت، خودمختاری اور آزادی کے مفہوم کو تلاش کرتا ہے

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here

Share post:

Subscribe

spot_imgspot_img

Popular

More like this
Related

پاکستان ایران کے جوہری پروگرام کے حق کے لیے ساتھ کھڑا ہے، شہباز شریف

 ایرانی صدر ڈاکٹر مسعود پزشکیان کے ساتھ مشترکہ پریس...

مودی راج کا ووٹر وار، ہندوتوا کا نیا ہتھیار، بہار میں مسلم ووٹرز کا منظم اخراج

بھارت میں ووٹ مانگنے سے پہلے ووٹر ہی مٹا...