وزیرِدفاع خواجہ محمد آصف نے کہا ہےکہ افغان طالبان اس وقت بھارت کی پراکسی بن چکے ہیں اور اگر افغانستان کی جانب سے سیز فائر کی خلاف ورزیاں جاری رہیں تو پاکستان کو بھرپور جواب دینا پڑے گا۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے جیو نیوز کے پروگرام ‘آج شاہ زیب خانزادہ کے ساتھ’ میں گفتگو کرتے ہوئے کیا۔
خواجہ آصف نے کہا کہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان جو 48 گھنٹے کا عارضی سیز فائر طے پایا تھا، وہ نازک نوعیت کا ہے اور وہ توقع نہیں کرتے کہ یہ زیادہ دیر برقرار رہے گا اگر افغانستان باقاعدہ خلاف ورزیاں جاری رکھتا ہے۔ ان کے بقول جب پاکستان پر جنگ مسلط کی جاتی ہے تو جوابی کارروائی کرنا ہمارا حق بنتا ہے۔
وزیرِ دفاع نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ طالبان کے بعض فیصلے اس وقت دہلی سے اسپانسر ہو رہے ہیں اور کابل دہلی کی پراکسی وار لڑ رہا ہے۔ انہوں نے سابقہ واقعات کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ بھارت کے جہاز گرائے جانے کے حوالے سے پوری دنیا گواہ ہے اور بعض بیانات یا شواہد غلط بیانی پر مبنی ہیں جنہیں افغان جانب سے پھیلایا جا رہا ہے۔
خواجہ آصف نےیہ بھی کہا کہ افغانستان بعض اوقات پاکستان کے خلاف بیانات اور جھوٹے شواہد پیش کرتا ہے مثال کے طور پر ایک ٹینک کی تصویر جسے افغان حکام پاکستان کا بتا رہے ہیں، وہ ٹینک پاکستان میں موجود ہی نہیں۔ انہوں نے نشاندہی کی کہ ایسی سازشیں امن کے امکانات کو نقصان پہنچاتی ہیں۔
کابل پر پاکستانی فضائی حملہ، ہدف غیر ملکی جنگجو تھے،افغان صحافی سمیع یوسفزئی کا دعویٰ
مزید کہا گیا کہ اگر طالبان کی جانب سے لڑائی میں اضافہ ہوا تو پاکستان اپنی پوری طاقت سے ردِعمل دے گا۔ وزیرِ دفاع نے بین الاقوامی گفت و شنید اور بعض دوست ممالک کی ثالثی کی کوششوں کا حوالہ بھی دیا، اور کہا کہ مذاکرات کے لیے ویزے دینے کی بات ہوئی مگر جب کشیدگی بڑھی تو وہ درخواستیں واپس لے لی گئیں۔
خواجہ آصف نے ایک بار پھر بین الاقوامی سطح پر امن کی وکالت کرنے والے اشاروں کو سراہا اور کہا کہ اگر امریکی صدر (ڈونلڈ) ٹرمپ یہاں بھی کشیدگی کم کروانا چاہیں تو اُن کا استقبال کیا جائے گا۔ ان کا کہنا تھا کہ ٹرمپ نے دیگر خطوں میں جنگ بندی کرا کر امن کی کوششیں کیں، لہٰذا اگر وہ ثالثی کریں تو موسٹ ویلکم ہے