گلگت بلتستان میں عجب کرپشن کی غضب کہانی اب اپنے انجام کی طرف بڑھنے لگی ۔
خوبصورت خطے میں چھپی بدعنوانی کی سیاہ کہانی کو اینٹی کرپشن اسٹیبلشمنٹ نے بےنقاب کر دیا ، اور اب وہ لوگ جو سالوں سے قانون کے سائے میں قانون کو روندتے رہے، انجام کے قریب پہنچ چکے ہیں
یہ کارروائی کوئی عام چھاپہ یا رسمی انکوائری نہیں تھی یہ ایک طویل، سنجیدہ اور مربوط تحقیقات کا نتیجہ تھی، جو ورکس ڈویژن، ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ میں مالی بے قاعدگیوں اور غیر قانونی تقرریوں سے متعلق عوامی شکایات کے بعد شروع کی گئی تھی۔
شکایات کو دبانے یا فائلوں کے نیچے دفنانے کے بجائے، اس بار انصاف نے سانس لی، اور قانون نے آنکھ کھولی۔
نتیجہ؟ ایک بڑا دھماکہ خیز انکشاف۔ انکوائری مکمل ہوتے ہی چیف انجینئر، ایکسئین، ایس ڈی او، سب انجینئر، کیشیئر، سینیئر اکاؤنٹ کلرک اور ڈویژنل اکاؤنٹ کلرک کے خلاف ایف آئی آر درج کر لی گئی
وہ افراد، جن پر عوام کے اعتماد اور قوم کے وسائل کی حفاظت کی ذمہ داری تھی، خود اس اعتماد کو نوچتے رہے۔
تحقیقات میں یہ بات بھی سامنے آئی کہ گرلز ڈگری کالج شگر، رتھ فاؤ گرلز کالج سلطان آباد گلگت، اور گرلز ہائی اسکول دشکن استور جیسے اہم اور حساس ترقیاتی منصوبے جو بچیوں کے تعلیمی مستقبل کا سہارا بن سکتے تھے
وہاں مالی بے ضابطگیوں سے مستقبل کی روشنی کو اندھیرے میں بدل دیا گیا۔
اس سے بھی زیادہ افسوسناک پہلو یہ ہے کہ جہاں ان منصوبوں کے ذریعے علم اور ترقی کی شمع روشن ہونی تھی، وہاں صرف کرپشن کا دھواں چھوڑا گیا۔ مگر اب یہ دھواں چھٹنے لگا ہے۔
اینٹی کرپشن ترجمان کے مطابق غیر قانونی تقرریوں کے بھی ٹھوس شواہد ملے ہیں، اور کارروائی کا دائرہ مزید وسیع ہو رہا ہے۔ متعدد افراد کو گرفتار کیا جا چکا ہے،
جبکہ دیگر کی گرفتاری کے لیے خصوصی چھاپہ مار ٹیمیں متحرک ہو چکی ہیں۔ آئندہ دنوں میں مزید انکشافات کی توقع ہے، جو اس کرپشن کی جڑوں کو اور گہرا ظاہر کریں گے۔