یکم نومبر 1984 بھارت کی تاریخ کا وہ المناک دن ہے جب پورے ملک میں سِکھ برادری کے خلاف ظلم و بربریت کی انتہا کر دی گئی۔ یہ سلسلہ اُس وقت شروع ہوا جب 31 اکتوبر کو بھارتی وزیرِاعظم اندرا گاندھی کے قتل کے بعد انتہا پسند ہندوؤں نے سکھوں کے خلاف منظم قتلِ عام شروع کر دیا۔
ان تین دنوں میں ہزاروں سِکھوں کو بے دردی سے قتل کیا گیا، ان کے گھروں کو نذرِ آتش کر دیا گیا جبکہ سینکڑوں خواتین کو جنسی تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ عالمی میڈیا اور انسانی حقوق کی تنظیموں نے اس قتلِ عام کو بھارت کی تاریخ کا شرمناک ترین باب قرار دیا۔
بین الاقوامی جریدے ڈپلومیٹ کے مطابق انتہا پسند ہندوؤں نے ووٹنگ لسٹوں کے ذریعے سکھوں کے گھروں کی نشاندہی کی اور پھر ان پر حملے کیے۔ رپورٹ میں بتایا گیا کہ سکھوں کے خلاف یہ منظم کارروائیاں بھارتی حکومت کی حمایت سے انجام دی گئیں۔
ہیومن رائٹس واچ نے بھی اپنی رپورٹ میں کہا کہ 1984 میں سکھوں کے خلاف قتل و غارت دراصل بھارتی حکومت کی سرپرستی میں ہونے والی منظم نسل کشی تھی۔
گواہوں کے مطابق حملہ آور رات کی تاریکی میں سکھوں کے گھروں کے باہر نشانات لگا جاتے تھے اور صبح کے وقت ان پر حملے کرتے۔ دہلی سمیت کئی شہروں میں تین دن تک یہ قتل و غارت بلا روک ٹوک جاری رہی۔
یہ پہلا موقع نہیں تھا کہ سکھ برادری کو ظلم کا نشانہ بنایا گیا۔ 1969 میں گجرات، 1984 میں امرتسر اور 2000 میں چٹی سنگھ پورہ میں بھی سکھوں پر ظلم و تشدد کے واقعات پیش آ چکے ہیں۔
2019 میں کسانوں کے احتجاج کے دوران نریندر مودی حکومت نے ہزاروں سکھ کسانوں کو گرفتار کیا، جبکہ بیرون ملک بھی بھارتی حکومت سکھ رہنماؤں کو ٹارگٹ کلنگ کے ذریعے نشانہ بناتی رہی ہے۔
گزشتہ برس 18 جون 2023 کو معروف سکھ رہنما ہردیپ سنگھ نجر کو کینیڈا میں قتل کر دیا گیا، جس پر کینیڈا کے سابق وزیراعظم جسٹن ٹروڈو نے بھارتی حکومت کے ملوث ہونے کی تصدیق کی تھی۔
سکھ برادری کے خلاف یہ مظالم اس بات کا ثبوت ہیں کہ بھارت میں اقلیتوں کی زندگی اب بھی غیر محفوظ ہے۔ اندرونِ ملک ہو یا بیرونِ ملک، سکھوں کے خلاف بھارتی حکومت کی کارروائیاں آج بھی مختلف شکلوں میں جاری ہیں۔


