امریکا نے وینزویلا کے ساحل کے قریب بین الاقوامی پانیوں میں ایک اور آئل ٹینکر پر قبضہ کر لیا ہے، جو ٹرمپ انتظامیہ کی وینزویلا پر بڑھتے ہوئے معاشی اور عسکری دباؤ کا حصہ قرار دیا جا رہا ہے۔
سی این این کے مطابق یہ رواں ماہ وینزویلا کے نزدیک امریکہ کی جانب سے کسی جہاز کی دوسری بڑی مداخلت ہے۔ 10 دسمبر کو بھی امریکہ نے اسکپر نامی آئل ٹینکر تحویل میں لیا تھا، جو ایران سے تعلقات کے باعث پابندیوں میں شامل تھا۔ تاہم حالیہ ضبطی کے دوران جہاز امریکی پابندیوں کی فہرست میں شامل نہیں تھا اور عملے کی جانب سے کسی مزاحمت کی اطلاع نہیں ملی۔
امریکی عہدیداروں کے مطابق یہ جہاز پاناما کے جھنڈے تلے چل رہا تھا اور وینزویلا کا تیل لے کر ایشیا کی جانب جا رہا تھا۔ کارروائی کی قیادت امریکی کوسٹ گارڈ نے کی، جبکہ امریکی فوج نے معاونت فراہم کی۔ یہ آپریشن مکمل طور پر بین الاقوامی سمندری حدود میں انجام پایا۔
امریکی وزیرِ داخلہ کرسٹی نوم نے سوشل میڈیا پر سات منٹ کی ویڈیو جاری کی، جس میں جہاز کے اوپر منڈلاتے ہیلی کاپٹر دکھائے گئے۔ ان کے مطابق یہ کارروائی علی الصبح کی گئی اور جہاز آخری بار وینزویلا میں لنگر انداز ہوا تھا۔
اسی دوران امریکی حکام نے بتایا کہ اتوار کے روز وینزویلا کے قریب ایک اور جہاز کو روکنے کی کوشش کی گئی، تاہم اس کی حتمی صورتحال اور سامان کے بارے میں تفصیلات ابھی سامنے نہیں آئیں۔
یہ تمام اقدامات صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے اعلان کے بعد سامنے آئے، جس میں انہوں نے وینزویلا سے تیل لے جانے والے پابندی زدہ ٹینکروں کے خلاف سمندری ناکہ بندی کی بات کی تھی۔
ان بحری کارروائیوں اور ممکنہ زمینی حملوں کی دھمکیوں نے کاراکاس پر دباؤ بڑھا دیا ہے، خاص طور پر ایسے وقت میں جب وینزویلا کی معیشت پہلے ہی تیل کے شعبے پر نئی پابندیوں کے باعث شدید دباؤ کا شکار ہے۔
امریکی فوج نے اب تک دعویٰ کیا ہے کہ اس نے منشیات کی اسمگلنگ کے خلاف کارروائیوں میں 29 مبینہ ڈرگ بوٹس تباہ کیے اور 104 افراد کو ہلاک کیا۔
اگرچہ ٹرمپ انتظامیہ ان کارروائیوں کو منشیات اور غیرقانونی مہاجرین کے خلاف مہم قرار دیتی ہے، لیکن وائٹ ہاؤس کے چیف آف اسٹاف سوزی وائلز کے بیانات سے واضح ہوتا ہے کہ اصل ہدف صدر نکولس مادورو کی حکومت کو کمزور کرنا ہے۔


